حنفی نماز مدلل ۔ احادیث طیبہ کی روشنی میں |
یرِ نظر |
|
(2)آمین کے آہستہ کہنے پربہت سے صحابہ کرام حتی کہ خلفاء راشدین اورحضرت عبد اللہ بن مسعود اور تابعین کا بھی عمل ہے جو خود ایک بہت بڑی وجہ ترجیح ہے جس سے حضرت شُعبہکی آمین بالسّر کی روایت کا راجح ہونا معلوم ہوتا ہے۔ (3)نبی کریمﷺکازورسے آمین کہنا تعلیم و تلقین کیلئے یعنی سکھانے کیلئے تھا ،مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی ،چنانچہ خود صحابی رسول حضرت ابووائل بن حجر نےاس کی صراحت کی ہے،چنانچہ وہ فرماتے ہیں:”فَقَالَ:«آمِينَ»يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلَّا يُعَلِّمُنَا“ یعنی آپ ﷺنے(سورۃ الفاتحہ کے بعد)بلند آواز سے آمین کہا ،جس کے بارے میں میرا خیال یہی ہے کہ آپ ﷺنےہمیں سکھانے کیلئے زور سے آمین کہا تھا۔( الکنیٰ و الاسماء للدولابی:1090) اِسی طرح حضرت وائل بن حُجر ہی کی ایک روایت میں ہے:”فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ:«آمِينَ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ“ کے الفاظ مَروی ہیں،یعنی جب آپ ﷺسورۃا لفاتحہ سے فارغ ہوئےتو تین مرتبہ آمین کہا ۔(طبرانی کبیر:22/22) غور کیجئے !مذکورہ روایت کا اِس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں کہ یہ تین مرتبہ آمین کہنالوگوں کو تعلیم دینے اوراُنہیں سکھانے کیلئے تھا ،پس جس طرح آپﷺکاخلافِ معمول ایک سے زائد مرتبہ آمین کہنا لوگوں کو سکھانے کیلئے تھا اِسی طرح خلافِ معمول آواز سے آمین کہنا بھی تعلیم و تلقین کیلئے تھا،کوئی مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی ،ورنہ ان روایاتِ جہریہ کے ہوتے ہوئے حضرت عُمر ،حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابہ کرام کے سراً آمین کہنے کا کیا مطلب ہوگا۔