وقت پوچھنے کے ساتھ ہى آپ کو فرمائش کرنا چاہئے تھا۔ لوگ اس کو ادب سمجھتے ہىں مىرے نزدىک ىہ بڑى بے ادبى ہے ۔ اس کے معنى تو ىہ ہىں کہ دوسرا شخص ہمارا نوکر ہے کہ جس وقت چاہىں فرمائش کرىں اس کى تعمىل ہونا چاہئے۔ اب آپ ہى ذرا غور سے کام لىجئے کہ مجھ کو اس وقت کتنے کام ہىں ۔ اب آپ ہى ذرا غور سے کام لىجئے کہ مجھ کو اس وقت کتنے کام ہىں ۔ اىک تو سنتىں و نوافل پڑھنا، پھر بعض ذاکرىن و شاغلىن کو کچھ کہناہے، ان کو سننا ، مہمانوں کو کھانا کھلانا۔ افسوس ہے کہ فى زماننا دنىا سے بالکل ادب و تہذىب مرتفع ہوگىا۔اب تعوىذ کے لىے پھر تشرىف لائىے۔ ىاد رکھئے جہاں جائے اوّل مقصود کا ذکر کر دىنا چاہئے بالخصوص پوچھنے پر۔ مَىں تو ہر شخص سے آتے کے ساتھ ہى درىافت کر لىتا ہوں تاکہ جو کچھ کہنا ہے کہہ دے اور اس کا حرج نہ ہو اور نہ مىرا حرج ہو۔ اور مىں خود اس وجہ سے پوچھ لىتا ہوں کہ اکثر اہل حوائج آتے ہىں اور بعض اشخاص بوجہ شرم و حىا خود نہىں کہہ سکتے ىا مجمع کى وجہ سے پوشىدہ بات کو ظاہر نہىں کر سکتے، پوچھنے سے وہ بتلا دىتے ہىں ىا کہہ دىتے ہىں کہ خلوت مىں کہنے کى بات ہے۔ مَىں جب موقع پاتا ہوں علىحدگى مىں ان کو بلا کر سُن لىتا ہوں۔ اور جب آدمى منہ ہى سے نہ بولے تو کىسے خبر ہوسکتى ہے ، مجھے علم غىب تو ہے ہى نہىں۔