ىعنى کسى مخلوق کا کسى قسم کا حکم ماننا جو خالق کے حکم کے خلاف ہو ہرگز جائز نہىں۔اور ىہ جملہ صورۃً خبر ہے اور مراد اس سے نہى ہے۔ اور نہى بصورت خبر ابلغ ہوتى ہے خود نہى کے صىغہ سے۔ پس نہاىت تاکىد سے ىہ امر ثابت ہو اکہ کسى مخلوق کا کوئى کہنا ماننا جس مىں اﷲتعالىٰ کى نافرمانى ہو ،ہرگز جائز نہىں۔ خوب سمجھ لو۔
ماں باپ کا نفقہ کب واجب ہوتا ہے
بىوى کے نفقہ کے سوا اور اہل قرابت کا نفقہ مرد کے ذمّہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب کہ وہ اس قدر مالک ہو جس سے صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے ، اور والدىن بھى اسى حکم مىں داخل ہىں۔ اور بىوى کا نفقہ ہر صورت مىں فرض ہے خواہ شوہر فقىر ہو ىا امىر ہو (حاشىہ شرح وقاىہ)
پس معلوم ہوا کہ جب تک بقدر مال مذکور مرد کے پاس نہ ہو والدىن کا نفقہ (ضرورى خرچ) واجب نہ ہوگا۔ اس تقرىر سے ىہ غرض نہىں کہ انسان والدىن سے بے رخى اور ان کے ادائے حقوق مىں کوتاہى اور ان کى احسان فراموشى کرے کہ ىہ تو بہت بُرى بات ہے۔ بلکہ غرض اس تمام تقرىر سے ىہ ہے کہ مبالغہ رفع کر دىا جاوے، وہ حقوق بھى بىان ہوجاوىں جو واجب ہىں اور بھى جو غىر ضرورى اور مستحب ىا مباح ہىں۔ والدىن رب مجازى ہىں ان کا بڑا لحاظ اور بڑى اطاعت کرنى