ادب83:۔بعد مغرب اىک ذاکر شاغل کو جس کى استدعاء پر اس کو ىہ وقت دىا گىا تھا کچھ تلقىن کے واسطے پکارا۔ کىونکہ ذرا دور تھے ان صاحب نے زبان سے ہاں تک نہىں کىا بلکہ خود اپنى جگہ سے اُٹھ کر روانہ ہوئے جس کى اطلاع نہ ہوئى۔ اس لىے دوبارہ اس خىال سے پکارا کہ شاىد سُنا نہ ہو۔ اتنے مىں وہ خود آگئے۔ استفسار فرماىا کہ آپ نے جواب کىوں نىں دىا ىا جواب کے لائق مجھ کو نہىں سمجھا۔ جواب دىنے سے داعى کو معلوم ہوجاتا ہے کہ مدعو نے سن لىا۔ اور جواب نہ دىنے مىں کلفت ہوتى ہے کہ وہ دوسرى مرتبہ پکارے،تىسرى دفعہ آواز دے۔ تو دوسرے کو ىہ تکلىف محض آپ کى لاپروائى اور سستى کى وجہ سے ہوئى کہ آپ سے زبان نہىں ہلائى گئى۔ اگر آپ ہاں کہہ دىتے تو کىا مشکل تھا۔ آج کل علوم کى تعلىم ہر جگہ ہے لىکن اَخلاق کى تعلىم مثل عنقا ہے۔ اب طبىعت پرىشانى ہوگئى پھر دوسرا وقت آپ کو دىا جائے گا اس مىں اس امر کا لحاظ رکھنا۔
ادب84:۔اىک ذاکر نے اثناء تعلىم مىں کہ ابھى تقرىر ختم نہىں ہوئى تھى کہ اپنا خواب بىان کرنا شروع کىا۔ فرماىا ىہ کىا حرکت ہے کہ اىک گفتگو ابھى ختم نہىں ہوئى دوسرى بات اس مىں داخل کر دى ؎
سخن را سر ست اے خردمند ان بن
مىاں در سخن درمىانِ سخن