مگر ىہاں زىادہ مؤکد ہے، سمجھانے کے لىے چند مسائل نمونے کے طور پر لکھتا ہوں۔
بىوى اور شوہر کا مال شرعا علىحدہ علىحدہ ہے
خاوند اور زوجہ کا مال شرعاً جدا جدا سمجھا جاتا ہے۔ جس چىز کى خرىدو فروخت اور ہر قسم کے تصرف کا حق زوجہ کو حاصل ہوگا وہ مال اس کا مملوک ہوگا ، اور جس مال پر اسى طرح زوج کاتصرف ہو وہ مال زوج کا ہے، خلط ملط اور گڑ بڑ کرنے سے اگر مال حدِ نصاب کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ وغىرہ ساقط نہ ہوگى۔ پس اگر خاوند کہے کہ مىرا تىرا اىک ہى معاملہ ہے تو زکوٰۃ نہ ادا کر تو ہرگز اس کا کہنا نہ مانے کہ اس مىں مخالفتِ خداوندى ہے اور کسى مخلوق کى اطاعت مخالفت الٰہى مىں جائز نہىں، لوگ اس مسئلہ مىں کوتاہى کرتے ہىں۔
شوہر کے حکم سے فرض ،واجب اور سنت
کو نہىں چھوڑا جاسکتا
اگر خاوند عورت کے مملوک مال جائز موقع مىں صرف کرنے سے روکے تو عورت کو اس کے حکم کى تعمىل واجب نہىں جب کہ بغىر کسى وجہ شرعى کے