رائے قائم کى جاتى۔ مگر نہىں معلوم قصداً ىا لاپرواہى سے اس کا خفا کىا۔ سو اگر مجھ کو احتمال نہ ہوتا تو صرف مضمون درخواست مىں کسى مانع کے نہ ہونے سے مىں ضرور اجازت دىتا اور ىہ بہت بڑا دھوکہ ہوتا۔ مگر اتفاق سے مجھ کو ىہ بات معلوم تھى اس لىے مجھ کو ىاد آگىا اور پوچھا کہ عمرو کے ساتھ کوئى اور بھى جاتا ہے؟ کہا کہ بکر جاتا ہے۔ مَىں نے پوچھا کہ پھر تم نے اس کا ذکر کىوں نہىں کىا؟ دھوکہ دىنا چاہتے تھے۔ اور مىں نے اس کوتاہى پر سخت ملامت کى اور سمجھاىا کہ خبردار جس کو اپنا بڑا اور خىر خواہ سمجھتے ہىں اس کے ساتھ اىسا معاملہ ہرگز نہ کرنا چاہئے۔
ادب81:۔اىک طالب علم سے اىک ملازم کى نسبت درىافت کىا کہ کىا کر رہا ہے؟ اس نے کہا کہ سو رہا ہے۔ بعد مىں معلوم ہوا کہ اپنى کوٹھڑى مىں جاگتا تھا۔ اس پر اس طالب علم کو فہمائش کى کہ اوّل تو محض تخمىن پر اىک بات کو تحقىقى سمجھنا ىہ غلط ہے۔ اگر خود اس کو غىر تحقىقى سمجھتے تھے تو مخاطَب پر اس کے تخمىنى ہونے کو ظاہر کرنا چاہئے تھا ىوں کہتے کہ شاىد سو رہے ہوں۔ اور ىہ بھى على سبىل التنزل کہا جاتا ہے ورنہ اصل جواب تو ىہ ہے کہ معلوم نہىں دىکھ کر بتلاؤں گا۔ پھر تحقىق کر کے صحىح جواب دىتے۔ دوسرے اس مىں ىہ خرابى ہے کہ اگر مجھ کو اس کا جاگنا بعد مىں معلوم نہ