ادب71:۔اىک مہمان نے بقصد ہدىہ دىنے کے دو روپے مىرے قلمدان مىں رکھ دىئے اور مجھ کو خبر نہىں کى۔ مَىں نماز عصر کو اُٹھا ،قلمدان وہىں رکھا رہا۔ نماز کے بعد کسى ضرورت سے قلمدار منگاىا تو اس مىں روپے دىکھے۔ پوچھا گىا تو کسى قدر توقف سے ان صاحب نے اس کى اطلاع کى۔ مَىں وہ روپے ىہ کہہ کر واپس کر دىئے کہ تم کو ہدىہ دىنا نہىں آىا تو ہدىہ دىنا ہى کىا ضرور۔ کىا ىہى طرىقہ ہے دىنے کا۔ اوّل تو ىہ ہدىہ دىتے ہىں راحت و مسرت پہنچانے کو اور جب کہ اس کى تحقىقات مىں اس قدر پرىشانى ہوئى ہوئى تو اس کى غرض ہى فوت ہوگئى۔ دوسرے اگر قلدان مىں سے کوئى لے جاتے جس کى نہ تم کو خبر ہوتى اور نہ مجھ کو تو تم اس گمان مىں رہتے کہ ہم نے دو روپے دىئے اور مَىں اس سے ذرا بھى منتفع نہ ہوتا تو مفت کا احسان ہى مىرے سر پر رہتا۔ تىسرے اگر کوئى لے بھى نہ جاتا اور مىرے ہى ہاتھ آتے تب بھى مجھ کو ىہ کىسے معلوم ہوتا کہ ىہ کس نے دىئے اور کس کو دىئے اور جب نہ معلوم ہوتا تو چند روز امانت رکھنے پر مجھ کو بار ہوتا، پھر لقطہ کى مد مىں صرف کر دىا جاتا۔ ىہ سارى مصىبت تکلّف کى ہے۔ سىدھى بات تو ىہ ہے کہ جس کو دىنا ہو اس کے ہاتھ مىں سپرد کر دے۔ اور اگر مجمع سے لحاظ معلوم ہو تو تنہائى مىں دے دے۔ اور اگر تنہائى مىسر نہ ہو تو کہہ