سے آکر وضو کروں گا لوٹا پانى کا بھر کر اور اس پر مسواک رکھ کر رکھ دىا۔ جب مَىں مسجد مىں آىا تو اتفاق سے مجھ کو وضو تھا سىدھا مسجد مىں چلا گىا۔ مگر مسجد مىں پہنچ کر اتفاق سے بلاقصد اس لوٹے پر نظر پڑى ،اپنى مسواک پہچان کر سمجھا کہ ىہ لوٹا مىرے لىے رکھا گىا ہے۔ مَىں نے تحقىق کىا کہ کس نے رکھا؟ بہت تشوىش کے بعد رکھنے والے نے خود ظاہر کىا۔ مَىں نے اس وقت مجملاً اور نماز پڑھ کر مفصلاً ان صاحب کو فہمائش کى کہ دىکھو تم نے محض احتمال پر کہ شاىد مىں وضو کروں لوٹا بھر کر رکھ دىا۔ اور ىہ احتمال نہ ہوا کہ شاىد وضو ہو، چنانچہ وہ تمہارا واقع مىں غلط نکلا۔ اور ىہ دوسرا احتمال واقع ہوا تو اس صورت مىں اگر اتفاق سے مىرى نظر لوٹے پر نہ پڑتى اور رکھنے والے خود بھى غائب تھے تو ىہ لوٹا ىوں ہى بھرا ہوا رکھا رہتا اور کوئى برت نہ سکتا۔ اوّل تو اس کے بھرے ہونے کى وجہ سے کہ ىہ قرىنہ ہے کہ کسى نے اپنے لئے رکھا ہے، اور دوسرے اس پر مسواک رکھے رہنے کے سبب سے کہ ىہ تو عادتاً قرىنہ قطعىہ ہے دوسروں کو استعمال سے روکنے کا۔ پس جب اس کو کوئى خرچ نہىں خرچ کر سکتا تو تم نے اىسى چىز کو بلا ضرورت محبوس کىا جس کے ساتھ نفع عام متعلق ہے جو کہ اس کى وضع و نىت واقف کے خلاف ہے تو ىہ کىسے جائز ہوسکتا ہے۔اب مسواک رہى