کہ شرىعت نے نہاىت درجہ پر اس کا خاص طور سے اہتمام کىا ہے کہ کسى شخص کى کوئى حرکت، کوئى حالت دوسرے شخص کے لئے ادنىٰ درجہ مىں بھى کسى قسم کى تکلىف و اذىت ىا ثقل و گرانى ىا ضىق و تنگى ىا تکدّر ىا انقباض ىا کراہت و ناگوارى ىا تشوىش و پرىشانى و خلجان کا سبب وموجب نہ ہو۔ حضرت شارع علىہ السلام نے صرف اقوال اور اپنے فعل سے ہى اس کے اہتمام کرنے پر اکتفا نہىں فرماىا بلکہ خدام کے قلت اعتناء(کے موقع پر ان کو صحىح آداب پر عمل کرنے پر مجبور فرماىا اور ان سے کام لے کر بھى بتلاىا ہے۔
چنانچہ اىک صحابىؓ ہدىہ لے کر آپ کى خدمت مىں بدونِ استىذان( داخل ہوگئے۔ آپ نے فرماىا: باہَر جاؤ اور السلام علىکم ، کىا! مَىں حاضر ہوں؟ کہہ کر پھر آؤ۔ اور فى الحقىقت حسن اخلاق مع الناس کا رأس واساس ىہى امر ہے کہ کسى کو کسى سے اىذاء وکلفت نہ پہنچے جس کو حضور پر نور نے نہاىت جامع الفاظ مىں ارشاد فرماىا:
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِهٖ وَ يَدِهٖ
اور جس امر سے اذىت ہوگى وہ صورۃً خدمت مالى ہو ىا جانى ىا ادب و تعظىم ہو