سونے والا دفعۃً جاگ اُٹھے اور پرىشان ہو۔(اور صحىح مسلم مىں (حضرت مقداد بن اسودؓ سے اىک طوىل قصہ مروى ہے کہ ہم رسول اﷲ کے مہمان تھے اور آپ ہى کے ہاں مقىم تھے بعد عشاء آکر لىٹ رہتے ۔ حضور اقدس دىر مىں تشرىف لاتے تو آپ سلام تو کرتے کہ شاىد جاگتے ہوں مگر اىسى آواز سے سلام کرتے کہ اگر جاگتے ہوں تو سُن لىں اور اگر سوتے ہوں تو آنکھ نہ کھلے۔ اس سے بھى وہى اہتمام معلوم ہوا جو اس سے پہلے حدىث مىں معلوم ہوا تھا، اور بکثرت حدىثىں اس باب کى موجود ہىں۔ رواىات فقىہ مىں اىسے شخص کو جو طعام وغىرہ ىا درس ،اوراد( مىں مشغول ہو سلام نہ کرنا مصرح ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بلا ضرورت کسى مشغول بشغل ضرورى کے قلب کو منتشر اور دو جانب کرنا شرعاً ناپسند ہے۔ اسى طرح گندۂ دہنى کے مرض مىں جو شخص مبتلا ہو اس کو مسجد مىں نہ آنے دىنا بھى فقہاء نے نقل کىا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کى اذىت کے اسباب کا انسداد نہاىت ضرورى ہے۔
ان دلائل مىں مجموعى طور پر نظر کرنے سے بدلالت واضح معلوم ہوتا ہے