خاص خدمت کسى کے مزاج کے خلاف ہو۔ اس کے ساتھ وہ معاملہ نہ کرے۔ گو اپنى خواہش ہو مگر دوسرے کى خواہش کو اس پر مقدم رکھے بعض لوگ جو بعض خدمات مىں اصرار کرتے ہىں۔ بزرگوں کو تکلىف دىتے ہىں اور ارشاد ہے کہ ”اىسے دو شخصوں کے درمىان مىں (جو قصداً پاس پاس بىٹھے ہوں) جا کر بىٹھنا حلال نہىں بدون ان کے اذن کے “۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئى اىسى ابت کرنا جس سے دوسروں کو کدورت ہو نہ چاہئے اور حدىث مىں ہے کہ حضور کو جب چھىنک آئى تو اپنا منہ ہاتھ ىا کپڑے سے ڈھانپ لىتے اور آواز کو پست فرماتے “۔(
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے جلىس کى اتنى رعاىت کرے کہ اس کو سخت آواز سے بھى اذىت و وحشت نہ ہو ۔ اور حضرت جابرؓ سے رواىت ہے کہ ہم جب نبى کرىم کے پاس آتے تو جو شخص جگہ پہنچ جاتا وہاں ہى بىٹھ جاتا،(ىعنى لوگوں کو چىر پھاڑ کر آگے نہ بڑھتا۔ اس سے بھى مجلس کا ادب ثابت ہوتا ہے کہ ان کو اتنى اىذاء بھى نہ پہنچائے ۔ اور حضرت ابن عباسؓ سے موقوفاً (اور حضرت انسؓ مرفوعاً (اور