ج۳ ص۲۶۸) تک تیئس مقامات قرآن مجید کے لکھے ہیں۔ جن میں لفظ توفی بمعنی موت آیا ہے انہی کو ہم نے بہت غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سب جگہ قرینہ قائم ہے۔ وہ مقامات حسب تفصیل ذیل ہیں۔ مقام اوّل سورہ نساء میں ہے۔ ’’حتیٰ یتوفہن الموت (النسائ:۱۵)‘‘ اس کو مرزاقادیانی نے یوں نقل کیا ہے۔ ’’ثم یتوفہن الموت‘‘ یہاں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ توفی سے مراد ’’اخذ الشیٔ وافیا‘‘ ہے۔ نہ موت ورنہ لفظ موت بیکار ہے اور اگر لفظ موت قرینہ تعیین معنی موت کا ٹھہرایا جاوے تو معلوم ہوا کہ توفی سے موت سمجھنا محتاج قرینہ ہے۔ مقام دوسرا سورہ آل عمران میں ہے: ’’وتوفنا مع الابرار (نسائ:۹۳)‘‘ یہاں مع الابرار قرینہ ہے ارادہ موت کے لئے۔ وہذا ظاہر!
مقام تیسرا سورہ سجدہ میں ہے: ’’قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم (سجدہ:۱۱)‘‘ یہاں لفظ ملک الموت قرینہ ہے۔ ارادہ موت کے لئے۔
مقام چوتھا سورہ نساء میں ہے: ’’ان الذین توفہم الملائکۃ ظالمی انفسہم (نسائ:۹۷)‘‘ یہاں لفظ ملائکہ قرینہ موجود ہے۔
مقام پانچواں سورہ مؤمن میں ہے: ’’فاما نرینک بعض الذی نعدہم اونتوفینک فالینا یرجعون (مؤمن:۷۷)‘‘ یہاں لفظ اما اور اوجو کلمہ حصر ہے۔ قرینہ ہے ارادہ موت پر۔
مقام چھٹا سورہ نحل میں ہے: ’’الذی تتوفہم الملائکۃ ظالمی انفسہم (النحل:۲۸)‘‘
مقام ساتوں بھی اسی میں ہے: ’’الذی تتوفہم الملائکۃ طیبین (نحل:۳۲)‘‘ مرزاقادیانی نے تتوفہم کی جگہ توفہم لکھا ہے۔ یہاں لفظ ملائکہ بلکہ سارا قصہ قرینہ ہے۔ ارادہ موت کا۔ مقام آٹھواں حسب تحریر مرزاقادیانی سورۂ بقرا میں ہے: ’’یتوفون منکم (بقرہ:۲۴۰)‘‘ یہ مقام خاکسار کو نہیں ملا۔
مقام نواں سورۂ بقرا میں ہے: ’’والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسہن اربعۃ اشہر وعشرا (بقرہ:۲۳۴)‘‘ یہاں لفظ ویذرون ازواجا یتربصن بلکہ سارے احکام جو اس مقام پر مذکور ہیں قرینہ ہیں۔ ارادہ موت پر اسی سورہ وپارہ