قولہ… ایہا الناس! واضح ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صعود اولی آسمان پر اور نزول اخریٰ آسمان سے بوجود عنصری جو ہمارے خیالوں میں بسا ہوا ہے۔ وہ کسی حدیث مرفوع صحیح سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ قرآن مجید میں کہیں پایا جاتا ہے بلکہ اعجاز نظام یعنی کلام اﷲ الملک العلام نے اس شبہ واقعہ کا بکلی رد کر دیا ہے۔ قال اﷲ تعالیٰ ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ الی آخر الایۃ‘‘ دیکھو لفظ متوفی کو اوّل ارشاد فرمایا اور لفظ رافعک کو بعد اس کے۔
نزول مسیح، قرآن وسنت کی روشنی میں
اقول… وباﷲ التوفیق وبیدہ ازمۃ التحقیق ایہا الناس! واضح ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صعود اولیٰ آسمان پر اور نزول آخری آسمان سے بوجود عنصری جو سلف صالح سے بلکہ رسول اﷲﷺ سے اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہم تک خیالوں میں بسا ہوا چلا آتا ہے۔ بالتصریح والتفصیل احادیث صحیحہ کثیرہ سے جن کو محدثین نے متواتر کہا اور آیات متعددہ سے ثابت ہے کہ جن میں شبہ اور تاویل بیجا موجب ضلات اور الحاد ہے۔ صعود کے بارہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ ظاہر ہے کہ رفعہ کی ضمیر اسی کے طرف راجع ہے۔ جس کے طرف ضمیر قتلوہ کی راجع ہے اور یہ بات مخفی نہیں کہ قتل روح کا نہیں ہوتا۔ پس قتلوہ کی ضمیر روح کے طرف نہیں۔ لہٰذا رفعہ کی ضمیر بھی روح کے طرف نہیں تو معلوم ہوا کہ اس سے رفع روح مراد نہیں۔ پس رفع جسمی ہی مراد ٹھہرا۔ فثبت المطلوب اور فرماتا ہے۔ ’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ اس کا بیان آگے آتا ہے اور بیان صعود کا احادیث سے سنو تو اوّلا واضح رہے کہ بعد تسلیم دو مقدموں کے جس قدر نصوص کہ نزول پر دلالت کرتی ہیں۔ وہی صوعود پر بھی دلالت کرتی ہیں اور اس مطلوب میں بین المراد ہیں۔ مقدمہ اوّل یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پہلے زمین پر تھے۔ مقدمہ ثانی یہ کہ نزول سے سوائے نزول ذاتی وجسمی کے کوئی دوسرا مطلب مراد نہیں تو مقدمہ اوّل تو بدیہی الثبوت اور بلاریب مسلم ہے اور مقدمہ ثانی کو پہلے ہی ہم بحمد اﷲ وحسن توفیقہ خوب مفصل ثابت کر چکے پس جن احادیث سے نزول ان کا ثابت ہوا انہیں سے ان کا صعود بھی ثابت ہوگیا۔ کیونکہ جب وہ بذات خود آسمان سے اتریں گے اور پہلے اس سے زمین پر تھے تو لامحالہ قبل اس کے وہ آسمان پر اٹھائے گئے۔ وہذا ہو الصعود وہو المطلوب!
ثانیاً یہ کہ اثر ابن عباس جس کو بسند صحیح ابن ابی حاتم نے روایت کیا۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر نے ذکر کیا۔ ’’عن ابن عباس قال لما اراد اﷲ ان یرفع عیسیٰ الیٰ السماء خرج علی اصحابہ وفی البیت اثناء عشر رجلا من الحواریین یعنی فخرج