ابوداؤد کی صحیح روایت میں (جس کو ہم اوپر لکھ چکے ہیں) یہ ہے۔ ’’فیقاتل الناس علی الاسلام فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویہلک اﷲ فی زمانہ الملل کلہا الا الاسلام‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد نزول کے لوگوں سے اسلام پر لڑیں گے۔ صلیب کو توڑدیں گے اور سور کو قتل کریں گے اور جزیہ کو چھوڑ دیں گے۔ (یعنی شریعت اسلام میں ان کے نزول سے قبل تک یہ حکم ہے کہ اہل کتاب اگر جزیہ دیں تو قبول کر لیا جاوے اور لڑائی ان سے موقوف رہے اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرماویں گے تو اس وقت جزیہ کا حکم نہیں رہے گا۔ ان کی لڑائی اسلام ہی سے رفع ہوگی۔ سوائے اسلام کے کچھ قبول نہ کریں گے۔ پس شعائر نصرانیہ کو بالکل کھو دیں گے۔ صلیب کو توڑ دیں گے۔ سور سخت حرام ہے ۔اس کو وہ برتتے ہیں۔ مار ڈالیں گے جب یہ ہوا تو) اﷲتعالیٰ کے فضل سے ان کے وقت میں کوئی ملت سوائے ملت اسلام کے باقی نہ رہے گی۔
قتل دجال کی بحث
اور مسلم میں ہے ’’فاذا رأہ عدو اﷲ ذاب کما یذوب الملح فی الماء فلوترکہ لا نذاب حتیٰ یہلک ولکن یقتلہ اﷲ بیدہ‘‘ یعنی جب عیسیٰ اتریں گے تو ان کو عدواﷲ (دجال) دیکھے گا تو جیسے نمک پانی میں پگھلتا ہے پگھلنے لگے گا۔ سو اگر عیسیٰ علیہ السلام اس کو چھوڑ دیں تو پگھل کر ہلاک ہو جاوے۔ لیکن اﷲتعالیٰ انہیں کے ہاتھ سے اسے قتل کراوے گا اور احمد اور ابن ماجہ کی صحیح حدیث میں ہے۔ (جس کو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں) ’’فانزل فاقتلہ‘‘
اور یہ بھی ہے ’’قال فیہلکہ اﷲ اذا راٰنی حتیٰ ان الحجر والشجر یقول یا مسلم ان تحتی کافراً فتعال فاقتلہ قال فیہلکم اﷲ‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اتروں گا تو اس کو قتل کروں گا۔ سو اس پر میرے دیکھنے سے ہلاکت پڑے گی۔ یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی کہنے لگیں گے کہ اے مسلمان میری آڑ میں کافر ہے۔ اس کو آکر قتل کر۔
اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے۔ (جس کے راوی سب راوۃ مسلم سے ہیں) ’’وینزل عیسیٰ بن مریم علیہ السلام عند صلوٰۃ الفجر فیقول امیرہم یا روح اﷲ تقدم صل فیقول ہذہ الامۃ امراء بعضہم علی بعض فیتقدم امیرہم فیصلی حتی اذا قضی صلاتہ اخذ عیسیٰ حربۃ فیذہب نحو الدجال ذاب کمام یذووب الرصاص فیضع حربۃ بین ثندوتہ فیقتلہ ویہزم اصحاب