حرب کریں۔ مگر پھر موقوف ہو جائے اور لڑائی نہ رہے۔
شق اوّل مسلم نہیں اس واسطے کہ مخالف ہے۔ ان روایات کے جو ابھی مقدمہ میں لکھی گئیں، اور تفسیر کلام نبوی ایسی چاہئے کہ مصداق ہو یفسر بعضہ بعضا کی اور شق ثانی تمہارے مدعا کے بالکل مخالف ہے کہ جس سے مقصد دلی جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔ پس یہ کہنا کہ درصورت نسخہ اوّل کے مدعا نہایت واضح ہے اس میں گنجائش تاویل کی نہیں بالکل غلط ہے۔ اس میں اور بھی کلام باقی ہے۔ بقصد اختصار چھوڑا گیا اور یہ جو کہا کہ درصورت نسخہ دوم کے اگرچہ تاویل بعید خلاف مقصود بعض نے کی ہے۔ تو یہ بنا فاسد کی فاسد پر ہے۔ جب اصل اصل نہ رہا تو تفریح اس پر بے اصل ہے۔ بلکہ مخالف اس کے برعکس کہہ سکتا ہے۔ ’’کما لا یخفی‘‘ اور یہ جو کہا کہ: ’’منسوخ ہونا احکام شرعیہ خاتم النبیین کا بھی لازم نہیں آتا ہے۔‘‘ تو میں کہتا ہوں کہ اگر نسخ سے یہ غرض ہے کہ نسخ من جانب خاتم النبیین ہی کے ہے تو اس میں کوئی محذور نہیں کہ جس سے بچنا ضرور ہو اور اگر یہ غرض کہ منجانب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہے تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ وہ اس کے ناسخ نہیں۔ بلکہ یہ اسی شریعت کا حکم مقید موقت ایک وقت معین تک ہے۔ یعنی شارع نے کہ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہیں۔ اﷲ کی طرف سے انہوں نے ایک وقت تک اس حکم پر عمل درآمد کرنے کو فرمادیا۔ اس کے بعد دوسرے پر۔ جب وہ وقت آگیا اور مدت پوری ہو گئی تو پہلا حکم اٹھ گیا۔ تو دوسرا جاری ہوا تو یہ انہیں کے طرف سے ہوا نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے۔ پس لازم غیرلازم اور مدعا باطل ہوگیا۔ ’’قال فی الفتح قال النووی ومعنی وضع عیسیٰ الجزیۃ مع انہا مشروعۃ فی ہذہ الشریعۃ ان مشرو عیتہا مقیدۃ بنزول عیسیٰ لمادل علیہ ہذا الخبر ولیس عیسیٰ بناسخ لحکم الجزیۃ بل نبیناﷺ ہو المبین للنسخ بقولہ ہذا‘‘ اسی طرح اور بھی شروح بخاری ومسلم دیگر سنن میں ہے۔ ’’کما لا یخفی علی واقف الفن‘‘ پس اس کلام صاحب رسالہ میں کئی وجوہ سے فساد ہے۔
قادیانی مؤلف کی غلطیاں
اوّل! یہ کہ بلاوجہ اور بغیر دلیل ایک نسخہ کو اوّل اور اصل اور ایک کو غیر اصل ٹھہرایا۔ حالانکہ جو غیراصل ٹھہرایا گیا اس کی ترجیح کی اس قدر وجوہ موجود ہیں کہ کہنے والا اگر اسی کو اصل ٹھہرائے تو بجا ہے۔
دوسری! یہ کہنا کہ درصورت نسخہ اوّل کے مدعا نہایت واضح ہے کہ جس میں گنجائش