جواب… یہ فخر وتعلّی عند اﷲ وعند الرسول ناپسند ہے۔ ان اﷲ لا یحب کل مختال فخور اور اہل علم وعقل کے نزدیک مذموم اور مولوی صاحب فرضی مسیحوں میں بے مثل ہیں۔ نہ تمام اہل اسلام میں اور ان کا خطاب بھی شاید الہامی ہو۔ کسی نے ان کو یہ خطاب دیا نہیں۔ اپنے منہ آپ میاں مٹھو کی مثل صادق ہے اور عاجز تو سائل ہے۔ ’’واما السائل فلا تنہر‘‘ حکم خالق ہے اور مخاطب تو مولوی صاحب عاجز کو اپنا بنا چکے۔ مثل مشہور ہے۔ ساتھ کھا کے ذات پوچھنا فعل عبث ہے، اور یہ سچ ہے کہ عاجز کو جناب مولوی صاحب کا سا علم نہیں ہے۔ مگر مولوی صاحب کو بھی مولانا محمد بشیر صاحب کی ہمسری کا خیال غلط ہے۔ اس لئے کہ مدتوں مولانا موصوف سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ جس سے اگر سچ بولیں تو انکار نہیں کر سکتے۔ پس جن سے برسوں استفادہ کیا ہو آج ان کے مقابل ہمسری کیسی بلکہ تمردی کرنی کہ مجھ سے مولانا صاحب مناظرہ کی درخواست کرتے ہیں۔ کیسی شرم کی بات ہے۔ سچ فرمایا سعدیؒ نے ؎
کس نیا موخت علم تیراز من
کہ مراعاقبت نشانہ نکرد
اور احسن المناظرین کی لیاقت کا حال تو بطور نمونہ یہ ہیچمدان ظاہر کئے دیتا ہے۔ کچھ مولانا صاحب کو تکلیف فرمانے کی ضرورت نہیں ؎
گو کہ ہم صفحہ ہستی پہ تھے ایک حرف غلط
لیکن اٹھے بھی تو ایک نقش بٹھا کے اٹھے
مرزاغلام احمد قادیانی مصنوعی مسیح اور فرضی مسیحوں کے افضل الفضلاء
جناب مولوی محمد احسن صاحب احسن المناظرین امروہی کی
لیاقت علوم اور کمال فنون کے چند نمونے
از رسالہ الحق جلد اوّل نمبر۵، ۵؍پنجاب پریس سیالکوٹ
ہر چند جناب احسن المناظرین صاحب کی تحریر اس درجہ لیاقت سے بھری ہوئی ہے کہ اگر قرآن مجید کی کوئی آیت بھی آپ نے نقل کی ہے تو خوبی قسمت سے سہو کاتب اس میں بھی ہوگیا ہے ورنہ دوسری عبارتوں کا تو کیا ذکر اور فہم معانی اور مطالب میں ماشاء اﷲ جو خدام والا کی ذہن کورسائی ہے۔ اس کا حال تو بطریق مشتے نمونہ ازخروارے واند کے ازبسیارے ملاحظہ ہی فرمالیجئے ؎
نقد ایمان سے ضد اس غارت گردین کو پڑی
تجھ سے اے احسن خدا سمجھے یہ تو نے کیا کیا