ہے۔ ۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو تیرا منہ کالا ہو کر گلے میں لعنتوں کا ہار ایسا پڑا تھا کہ اگر اس کو تیری جنگ مقدس کا فوٹو کہیں تو بہت مناسب ہے۔ جابے غیرت، بے حیا چپ ہو کے بیٹھ۔ کچھ شرم کر روٹی کے لئے اور فن اور فریب تھوڑے ہیں۔ تیرے ہم پیشہ بہت سے ہیں۔ جفار بے شمار ہیں۔ جوتشی پنڈت بکثرت ہیں کیا ایسے دعاوی کئے۔ بغیر ان کو روٹی نہیں ملتی۔ ایسی گیڈر بھبکیاں کسی مشرک کو سنایا کر۔ مسلمان تو اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ’’لن تصیبنا الا ما کتب اﷲ لنا ھو مولٰنا وعلیٰ اﷲ فلیتوکل المؤمنون‘‘ ہمیں تو وہی پہنچے گا۔ جو ہمارے لئے اﷲ نے لکھ رکھا ہے۔ وہی اﷲ ہمارا مالک ہے اور اﷲ ہی پر ایمان والوں کو بھروسا رکھنا چاہئے۔
قادیانی… مجھے تیرے حق میں ابھی ایک بڑا خوفناک الہام ہوا ہے۔
مسلمان… بہت تیرے الہام کی… ایسے الہام کو اپنے سیاہ نامہ میں لکھ رکھ۔ تو تو کہتا ہے میں جمالی طور پر آیا ہوں۔ تجھ میں یہ جلال کہاں سے آگیا۔ شاید تو جلال ہے۔ جا اپنی غذا پیٹ بھر کر کھا اور میں پڑھتا ہوں۔ ’’حسبی اﷲ ونعم الوکیل‘‘
قادیانی دجال کا استیصال!
(حصہ نظم)
M!
رباعی نمبر:۱
رباعی نمبر:۲
ابن مریم کا محقر بہ حسودی ہے تو
نہ مرا آتھم ترسایہ سہ ماہ ویک سال
ناقۃ اﷲ کا بدخواہ ثمودی ہے تو
پانچواں سال ہے سلطان کو بھی اے رمال
قادیانی تیرا عیسیٰ کو چڑھانا سولی
کادیانی تیرا منہ کر گیا کالا وہ بشیر
سن کے کہتے ہیں مسلمان کہ یہودی ہے تو
بن کے اب مرسل یزداں تو ہوا ہے دجال
کادیانی نہ شکوہ کر نہ گلہ
تھا یہی نظم ناصری کا صلہ