واقعات گذشتہ سے متعلق ہے اس شرط سے قبول کیا جائے گا کہ قرآن کریم کے اخبار وغیرہ سے معارض نہ ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۶۲، خزائن ج۳ ص۵۷۰،۵۷۱)
مرزاقادیانی کی اس نئی روشنی کا ماحصل
قرآن شریف محمدﷺ کا اپنا کلام ہے نہ اﷲتعالیٰ کا۔ حضرتﷺ کے دل میں اﷲتعالیٰ کی محبت کا نہایت درجہ کا جوش پیدا ہوا اور ایک ایسی روح آسمانی مجوزہ قادیانی کا جس کا آفتاب سے ایسا شدید تعلق ہے جس کے سبب سے وہاں سے چھوٹنا محال ہے۔ نہایت درجہ کا اثر اور عکس حضرت کے دل پر ہمیشہ پڑتا رہا۔ اسی واسطے حضرتﷺ نے قرآن شریف خود تالیف کر کے خلاف واقعہ اﷲتعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا اور اس میں ایسی آیتیں بھی درج کر دیں جن کا صحیح مطلب خود بھی نہیں سمجھتے تھے۔
تنبیہ: یہ شخض اصل میں بانی نیچر کا چور چیلہ ہے۔ اس نے زیر آیت ’’وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا‘‘ صاف لفظوں میں لکھ دیا ہے کہ خداتعالیٰ اور پیغمبرﷺ میں کوئی ایلچی نہیں ہے اور نبوت مثل دیگر قوی انسانی کے ایک فطرتی چیز ہے اور نبوت اور وحی اور جبرائیل اور قرآن جو کچھ ہے سب پیغمبر کے دل ہی دل میں سے ہے۔ باہر سے کچھ نہیں آیا۔ وہی بات اس شخص نے چرا کر لکھ دی ہے۔ مگر اپنے منصب تلبیس کی کاروائی کے بعد۸؎ اصل میں اسی طرح رہے صحیح دیکھ کر بھی۔
تنبیہ: یہ شخص الفاظ وہی بولتا ہے جو اہل اسلام بولا کرتے ہیں۔ مگر معانی ان کے اور مراد رکھتا ہے۔ اس کے قرآن کریم کو ماننے کی حقیقت تو خوب کھل چکی ہے۔ اسی طرح دیگر ایمانیات پر اس کا ایمان سمجھ لو۔ مثلاً:
مسلمان… آپ خداتعالیٰ کو مانتے ہیں؟
کادیانی…مانتے ہیں۔
مسلمان…کس طور پر مانتے ہو جس طور پر آپ کا جی چاہے۔ یا جس طور پر خداتعالیٰ نے خود تعلیم کیا ہے؟
کادیانی…جس طور پر خداتعالیٰ نے خود تعلیم کیا ہے۔
مسلمان…خدائے تعالیٰ نے وہ طور پر آپ کو بلاواسطہ تعلیم کیا ہے یا باواسطہ؟
کادیانی…باواسطہ۔
مسلمان…وہ واسطہ کیا ہے؟