تحریر چہارم راقم مولانا بشیر کہسوانی جو بعد انقطاع مناظرہ لکھی گئی ہے
الحمد ﷲ الذی ہدانا للاسلام وما کنا لنہتدی لولا ان ہدانا اﷲ والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد سید کل صدیق اواب اواہ وعلیٰ آلہ وصحبہ واتباعہ الرادین علی کل دجال کذاب تیاہ۔ اما بعد!
قولہ… اے ناظرین! آپ صاحبوں پر واضح ہے کہ حضرت مولوی محمد بشیر صاحب نے مجھ سے تحریری مباحثہ شروع کر کے اس بات کا ثابت کرنا اپنے ذمہ لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم زندہ اپنی خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے اور آسمان پر اس خاکی جسم کے ساتھ زندہ موجود ہیں۔
اقول… حضرت مسیح بن مریم کا زندہ اپنی خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھایا جانا اور آسمان پر اسی خاکی جسم کے ساتھ موجود ہونا اگرچہ میرے نزدیک حق ہے۔ مگر ابھی تک مرزاقادیانی کے مقابلہ میں یہ دعویٰ میں نے نہیں کیا ہے ۔بالفعل جو دعویٰ مرزاقادیانی کے مقابلہ میں کیاگیا ہے۔ وہ صرف یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام خاکی جسم کے ساتھ زندہ موجود ہیں۔ مرزاقادیانی نے یہ تدلیس دعویٰ کی شاید اس غرض سے کی ہے کہ آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ سے تو صرف حیات ثابت ہوتی ہے نہ خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھایا جانا اور نہ آسمان پر اس خاکی جسم کے ساتھ زندہ موجود ہونا ’’وہذا البعید من التقویٰ والدیانۃ‘‘
قولہ… پھر چار آیتوں کو تو خود اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دیا کہ ان سے حضرت مسیح علیہ السلام کا جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہونا قطعی طور پر ثابت نہیںہوتا۔ یعنی کئی احتمال رکھتے ہیں اور قطعیۃ الدلالۃ نہیںہیں۔
اقول… مخفی نہ رہے۔ قطعیۃ الدلالۃ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قطعیۃ الدلالۃ لذاتہا اور دوسری قطعیۃ الدلالۃ لغیرہا پہلی آیت وقطعیۃ الدلالۃ لذاتہا ہے اور دوسری آیات قطیعۃ الدلالۃ لغیرہا ہیں۔ یعنی بضم آیت وان من اہل الکتاب اور اس امر کی تصریح پہلی ہی تحریر میں خاکسار کر چکا ہے۔ پس مرزاقادیانی کا عموماً اور مطلقاً یہ قول کہ پھر چار آیتوں کو تو خود اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دیا کہ ان سے حضرت مسیح کا جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہونا قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا۔ محض افتراء وبہتان ہے۔ کیونکہ جس اعتبار اور حیثیت سے ان کو میں نے قطعی کہا ہے اس اعتبار سے میں نے ان کو ہرگز نہیں چھوڑا۔ میں ان کو اب بھی قطعی کہتا ہوں۔