اقول… (محمد بشیر) فہم ابوہریرہؓ کو میں حجت نہیں کہتا۔ استدلال تو لفظ ابن مریم سے ہے جو حدیث میں واقع ہے۔
قولہ… (قادیانی) یہ حدیث مرسل ہے۔ پھر کیونکر قطعیۃ الدلالت ہوگی۔
اقول… (محمد بشیر) اس حدیث کو قطعیۃ الدلالت نہیں کہا گیا۔ صرف تائید کے لئے لائی گئی ہے۔
قولہ… (قادیانی) یہ بخاری کی حدیث مرفوع متصل سے جو حضرت مسیح کی وفات پر دلالت کرتی ہے اور نیز قرآن کی تعلیم سے مخالف ہے۔
اقول… (محمد بشیر) آپ وہ حدیث صحیح مرفوع متصل بیان فرمائیے۔ تاکہ اس میں نظر کی جاوے اور مخالفت تعلیم قرآن غیر مسلم ہے۔ ’’ومن یدعی فعلیہ البیان‘‘
محمد بشیر عفی عنہ
۲۵؍اکتوبر ۱۸۹۱ء
محمد بشیر بھوپالی کا تیسرا پرچہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ حامداً مصلیاً مسلماً۔ ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذہدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب!
قولہ… (قادیانی) میں کہتا ہوں کہ اس بات کو ادنیٰ استعداد کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ بارثبوت کسی امر متنازع فیہ کی نسبت اس فریق پرہوا کرتا ہے کہ جو ایک امرکا کسی طور پر ایک مقام میں اقرار کر کے پھر کسی دوسری صورت اور دوسرے مقام میں اسی امر قبول کردہ کا انکار کر دیتا ہے۔
اقول… (محمد بشیر) یہاں کلام ہے۔ بچند وجوہ۴؎:
اوّل… یہ کہ آپ قبل ادعاء مسیحیت براہین احمدیہ میں اقرار حیات مسیح کا کر چکے ہیں اور اب آپ حیات کا انکار کرتے ہیں تو موافق اپنی تعریف کے آپ مدعی ٹھہرے۔
دوم… خاکسار آپ سے سوال کرتا ہے۔ ایماناً اس کا جواب دیجئے۔ وہ یہ ہے کہ آپ کا یہ خیال کہ مسیح علیہ السلام وفات پاچکے۔ بعد آپ کے اس الہام کے پیدا ہوا ہے کہ مسیح فوت ہوگیا یا قبل اس کے اگر بعد پیدا ہوا ہے تو گویا یہ کہنا ہوا کہ الہام سے پہلے میرا اس خیال سے کچھ واسطہ نہ تھا اور یہ میرا دعویٰ نیا ہے۔ جو وقت الہام کے پیدا ہوا۔ اس وجہ سے آپ مدعی ہوئے اور ثبوت آپ کے ذمہ ہوا کہ آپ بعد اس اقرار کے کہ الہام سے پہلے مجھ کو اس خیال سے کچھ واسطہ نہ تھا۔ پھر مخالف اپنے اس پہلے بیان کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وقت الہام سے مجھ کو یہ خیال ہے کہ