اور فرمایا سورہ انعام میں: ’’وھو الذی یتوفا کم باللیل ویعلم ماجرحتم بالنہار ثم یبعثکم فیہ لیقضی اجل مسمی (انعام:۶۰)‘‘
اور قسم دوم کا جواب بعد تسلیم عمومات کے یہ ہے کہ آیت: ’’وان من اہل الکتاب‘‘ جو قطعی الدلالۃ ہے۔ ان آیات کی مخصص واقع ہوئی ہے۔
اور قسم سوم کا جواب یہ ہے کہ اگر بالفرض تسلیم کیا جاوے کہ الفاظ ’’فی نفسہا‘‘ ان معانی کے محتمل ہیں جو مرزاقادیانی نے بیان کئے ہیں۔ لیکن آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ جو قطعی الثبوت وقطعی الدلالۃ ہے۔ ان احتمالات کو رد کرتی ہے۔ لہٰذا وہ معنی باطل ہوئے۔ صحیح معنی ان آیات کے وہ ہیں جو تفاسیر معتبرہ میں مذکور ہیں اور وہ موافق ہیں آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ کے اور جواب تفصیلی ان آیات کا جن کو مرزاقادیانی نے واسطے ثبوت وفات پیش کیا ہے۔ ازالہ اوہام کے جواب میں انشاء اﷲ بہ بسط لکھا جاوے گا۔ ’’وآخردعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ اجمعین‘‘
محمد بشیر سہسوانی کا دوسرا پرچہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ اللہم انصر من نصر الحق وخذل الباطل واجعلنا منہم واخذل من خذل الحق ونصر الباطل ولاتجعلنا منہم۔ اما بعد!
واضح ہو کہ مرزاقادیانی نے بہت امور کا جواب اپنی تحریر میں نہیں دیا ہے۔ ناظرین کو مطالعہ سے معلوم ہو جائے گا اور اصل اور عمدہ بحث خاکسار کی تحریر میں نون تاکید کی ہے۔ مرزاقادیانی نے اس کے جواب میں نہ کوئی عبارت کسی کتاب نحو کی نقل کی اور نہ ان عبارات میں جو خاکسار نے نقل کی تھیں۔ کچھ جرح کی۔
اور یہ امر بھی مخفی نہ رہے کہ میری اصل دلیل حیات مسیح علیہ السلام پر آیت اولی ہے۔ میرے نزدیک یہ آیت اس مطلوب پر دلالت کرنے میں قطعی ہے۔ دوسری آیات محض تائید کے لئے لکھی گئی ہیں۔ مرزاقادیانی کو چاہئے کہ اصل بحث، آیت اولی کی رکھیں۔ دوسری ابحاث کو تبعی واسطرادی تصور فرمائیں۔
قولہ… (قادیانی) یہ بات صحیح نہیں ہے کہ مسئلہ وفات حیات مسیح میں بارثبوت اس عاجز کے ذمہ ہو۔
اقول… (محمد بشیر) اس میں کلام ہے۔ بچندوجوہ۔