پھر فرماتے ہیں کہ: ’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے۔ مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۲، خزائن ج۳ ص۱۰۴)
اب اسی اوّل نکتہ چینی کی بناء پر جو جو باتیں مرزاقادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بنائی ہیں۔ وہ ملاحظہ ہوں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اخلاق کی نسبت مرزاقادیانی کا بیان
’’اس جگہ حضرت مسیح کی تہذیب اور اخلاقی حالت پر ایک سخت اعتراض وارد ہوتا ہے۔ کیونکہ متی۲۳، باب میں وہ فرماتے ہیں کہ فقیہ اور فریسی موسی کی گدی پر بیٹھے ہوئے ہیںَ یعنی بڑے بزرگ ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ لوگ یہودیوں کے مقتداء کہلاتے تھے اور قیصر کے دربار میں بڑی عزت کے ساتھ خاص رئیسوں میں بٹھائے جاتے تھے۔ پھر باوجود ان سب باتوں کے انہیں فقیہوں اور فریسیوں کو مخاطب کر کے حضرت مسیح نے نہایت غیرمہذب الفاظ استعمال کئے۔ بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ ان یہودیوں کے معزز بزرگوں نے نہایت نرم اور مؤدبانہ الفاظ سے سراسر انکساری کے طور پر حضرت مسیح کی خدمت میں یوں عرض کی… اور پھر اسی پر بس نہیں کی۔ بلکہ وہ ان معزز لوگوں کو ہمیشہ دشنام دہی کے طور پر یاد کرتے رہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۹تا۱۱ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۰۷،۱۰۸)
پھر لکھتے ہیں کہ: ’’مسیح کا یہ کہنا سچ ہے کہ میں نیک نہیں ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۲، خزائن ج۳ ص۱۰۸)
پھر لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت مسیح کی سخت زبانی تمام نبیوں سے بڑھی ہوئی ہے اور انجیل سے ثابت ہے کہ اس سخت کلامی کی وجہ سے کئی مرتبہ یہودیوں نے حضرت مسیح کے مارنے کے لئے پتھر اٹھائے اور سردار کاہن کی بے ادبی سے حضرت مسیح نے اپنے منہ پر طمانچے بھی کھائے۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل حاشیہ ص۱۶، خزائن ج۳ ص۱۱۰)
عاجز نے مرزاقادیانی کے ان تمام بیانات کی نسبت اپنے خط نمبر۲ میں صرف یہ لکھا ہے کہ افسوس اب غیرقومیں کیا کہیں گی۔ میری غرض ان الفاظ سے صرف اسی قدر ہے کہ جس رنگ سے مرزاقادیانی نے بیان فرمایا ہے۔ اس سے غیر قومیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔ مثلاً ایک منکر قرآن کہہ سکتا ہے کہ قرآن مجید کی سخت بیانی کی نسبت مرزاقادیانی کا جو مسلمان ہیں یہ بیان ہے۔ یہودی کہہ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کا مسیح کے معجزات اور ان کی اخلاقی حالت کی نسبت یہ بیان