بیان کرتے ہیں۔ الخ! تب مرزاقادیانی نے بعد ایک مدت کے مجبور ہوکر درخواست مباہلہ کی ہے۔ اب تم غور کرو کہ درخواست مرزاقادیانی دربارہ مباہلہ مولوی اسماعیل صاحب سے کیسی مطابق شرائط ہوئے کہ اس میں ایک شرط بھی فوت ہونے نہیں پائی۔ بخلاف درخواست مباہلہ مولوی عبدالحق صاحب کی کہ اس میں ایک شرط مباہلہ بھی نہیں پائی جاتی۔ بلکہ خلاف سنت ہے۔ اسی واسطے مرزاقادیانی باربار اصرار فرماتے ہیں کہ اوّلا ایک جلسہ علماء کا منعقد ہو۔ الخ! مرزاقادیانی نے یہ اشتہار بھی دیا ہے کہ جب تک تیسرا رسالہ ازالہ اوہام طبع ہوکر شائع نہ ہو لے تب تک کوئی صاحب علم مخالفانہ تحریر نہ کریں۔ واﷲ درمن قال!
کار مردان روشنی وگرمی است
الیٰ آخر القول!
اقول… بحول اﷲ تعالیٰ وتوفیقہ! واضح رہے کہ مرازقادیانی نے جو جناب مولوی اسماعیل صاحب علی گڑھی سے درخواست مباہلہ کی تھی تو اسی بات پر کہ انہوں نے بہ نقل ایک ثقہ کے یہ کہا کہ مرزاقادیانی کے پاس آلات نجوم ہیں وہ ان کے ذریعہ سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی اپنے رسالہ (فتح اسلام ص۳۸، خزائن ج۳ ص۲۳) میں مولوی صاحب موصوف کے اس قول کے جواب میں سید احمد عرب جن کو میں ثقہ جانتا ہوں۔ وہ مجھ سے بلاواسطہ بیان کرتے تھے کہ میں نے دو ماہ تک ان کے پاس (یعنی مرزاقادیانی کے پاس) ان کے معتقدین خاص کے زمرہ میں رہ کر بنظر تجسس وامتحان ہر یک وقت خاص پر حاضر رہ کر جانچا تو معلوم ہوا کہ درحقیقت ان کے پاس آلات نجوم ہیں۔ وہ ان سے کام لیتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔ ’’اقول تعالوا ندع آباء نا وابناء کم ونساء نا ونساء کم وانفسنا وانفسکم ثم نبتہل فنعجل لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘ میرے طرف سے درحقیقت یہی جواب ہے۔
مرزاکے علی گڑھ آنے کی تفصیل
مرزاقادیانی پھر واضح رہے کہ چونکہ صاحب رسالہ نے اس جگہ مولوی صاحب موصوف کے ساتھ مرزاقادیانی کی گفتگو اور مغلوب کرنے کا ذکر کیا تو مجھ کو ضرور ہوا کہ پہلے اس کی واقعی کیفیت سے مطلع ہوکر قول صاحب رسالہ پر بحث کروں تو میں نے مولوی اسماعیل صاحب مدظلہ علی گڑھی کو لکھا کہ آپ کے ساتھ جو کچھ گفتگو مرزاقادیانی نے کی ہے۔ واقعی طور پر کل سے مطلع فرماویں تو مولوی صاحب موصوف نے کہ کسی دوسرے کے نامزد کر کے بقصد طبع تیار کر کے رکھے تھے۔ میرے خط کے پہنچتے ہی مجھ کو روانہ کر دے۔ چونکہ وہ بیان بہت طویل ہے۔ کیونکہ سب اوّل