طرف توجہ فرمائیں۔ اب بعد اس تمہید کے عاجز مرزاقادیانی کے کلام کی تفصیل اور اپنے اعتراض اور مولوی صاحب کا جواب اور اپنا جواب الجواب پیش کر کے ناظرین سے انصاف چاہتا ہے کہ یہ خوش فہمی یا نادانی عاجز کی ہے یا جناب احسن المناظرین صاحب کی حسن لیاقت ہے؟
مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’پہلی نکتہ چینی اس عاجز کی نسبت یہ کی گئی ہے کہ اپنے مخالفین کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے۔‘‘ دیکھو (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۱۲،۱۳، خزائن ج۳ ص۱۰۸) حقیقت میں یہ نکتہ چینی مرزاقادیانی کی نسبت کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔ مگر مرزاقادیانی نے اس بناء پر قرآن مجید اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے کلام پر اعتراضوں کی بوچھاڑ کر دی اور جھاڑ باندھ دیا۔ چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’اگر ہر ایک سخت اور آزاردہ تقریر کو محض بوجہ اس کی مرارت اور تلخی اور ایذأ رسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پر ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۱۳، خزائن ج۳ ص۱۰۹) پھر انجیل شریف کی نسبت مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’کسی نبی کے کلام میںایسے سخت اور آزاردہ الفاظ نہیں ہیں۔ جیسے انجیل میں ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۱۶، خزائن ج۳ ص۱۱۰)
حاصل یہ کہ (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۲تا۳۶) تک برابر یہی مذکور ہے۔ جس میں سے کل تو میں نہیں بیان کر سکتا۔ مگر نمونے کے طور پر کچھ تھوڑا سا عرض کرنا بھی ضروری جانتا ہوں۔
مرزاقادیانی کے بعض اقوال بطور نمونہ
۱… ’’قرآن شریف جس آواز بلند سے سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے ایک غایت درجہ کا غبی اور سخت درجہ کا نادان بھی اس سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ مثلاً زمانہ حال کے مہذبین کے نزدیک کسی پر لعنت بھیجنا ایک سخت گالی ہے۔ لیکن قرآن شریف کفار کو سنا سنا کر ان پر لعنت بھیجتا ہے… ایسا ہی کسی انسان کو حیوان کہنا بھی ایک قسم کی گالی ہے۔ لیکن قرآن شریف نہ صرف حیوان بلکہ کفار اور منکرین کو دنیا کے تمام حیوانات سے بدتر قرار دیتا ہے… ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی خاص آدمی کا نام لے کر یا اشارہ کے طور پر اس کو نشانہ بنا کر گالی دینا زمانہ حال کی تہذیب کے خلاف ہے۔ لیکن قرآن شریف میں بعض کا نام ابولہب اور بعض کا کلب اور خنزیر رکھنا اور ابوجہل تو خود مشہور ہے ایسا ہی ولید مغیرہ کی نسبت نہایت درجہ کے سخت الفاظ جو بصورت ظاہر گندی گالیاں معلوم ہوتی ہیں۔ استعمال کئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۲۵تا۲۷، خزائن ج۳ ص۱۱۵، ۱۱۶ ملخص)
پھر ارشاد فرماتے ہیں: ’’اور اس جگہ ایک نہایت عمدہ لطیفہ یہ ہے کہ ولید مغیرہ نے نرمی اختیار کر کے چاہا کہ ہم سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے۔ اس کے جواب میں اس کے تمام پردے کھولے