عرض مرتب
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۰ اما بعد!
محض اﷲ رب العزت کی عنایت کردہ توفیق وفضل سے احتساب قادیانیت کی جلدبیالیس (۴۲) پیش خدمت ہے۔ اس جلد کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں صرف وہ کتابیں شامل کی گئی ہیں جو دجال کادیان کے رد میں اس کے جیتے جی (حین حیات) میں لکھی گئیں۔ لیکن کذاب کادیان کو ان کی تردید کی توفیق نہ ہوئی۔ حالانکہ ان کتب کے شائع ہونے کے بعد وہ سالہاسال زندہ رہا۔
۱… الحق الصریح فی اثبات حیات المسیح: ملعون کادیان مرزاغلام احمد قادیانی نے اکتوبر ۱۸۹۱ء میں دہلی جاکر مولانا سید نذیر حسین صاحبؒ سے مناظرہ کی طرح ڈالی۔ لیکن پھر خود ہی حیلے بہانوں سے کنی کترانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ تب اس زمانہ کے ایک عالم دین مولانا محمد بشیر شہسوانیؒ جو بھوپال میں مقیم تھے، انہوں نے مرزاقادیانی کو کھلی چھٹی دے دی کہ جن شرائط پر آپ چاہیں آپ سے مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ بھوپال سے وہ دہلی تشریف لائے اور مرزاقادیانی کے ’’گاٹے فٹ‘‘ ہوگئے۔ ماہ اکتوبر۱۸۹۱ء دہلی میں مناظرہ ہوا۔ مولانا محمد بشیر شہسوانیؒ نے تین پرچے لکھے۔ تین پرچے مرزاقادیانی نے لکھے۔ لیکن تیسرے پرچہ میں مرزاقادیانی نے اپنے خسر میرناصر کی بیماری کا بہانہ کر کے قادیان جانے کے لئے دہلی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ مولانا محمد بشیر صاحبؒ نے بہت زور لگایا کہ اپنے تیسرے پرچہ کا جواب لے لو۔ لیکن مرزاقادیانی نہ مانا۔ ’’میں نہ مانوں‘‘ کی گردان نے مرزاقادیانی نے منہ سے جھاگ کا منظر پیش کیا۔ مولانا محمد بشیر صاحبؒ نے اس کا جواب لکھ کر مرزاقادیانی کو بھجوایا۔ مولانا محمد بشیر صاحب شہسوانیؒ نے ’’الحق الصریح فی اثبات حیات المسیح ‘‘تحریر فرمائی۔ ہم نے