اور فرمایا: ’’ومن یرتد منکم عن دینہ‘‘ کیا اس کے معنی یہی ہیں کہ جو تم میں کا پیدا مرتد ہو جاوے اور فرمایا۔ ’’یا ایہا الذین اٰمنوا لا تتخذوا بطانۃ من دونکم‘‘ کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ اے ایمان والو! اپنے غیر سے پیدا کو بھیدی نہ بناؤ۔
اور فرمایا: ’’ومن یتولہم منکم فاؤلئک ہم الظالمون‘‘ کیا اس کے یہی معنی ہیں کہ جو تم میں کا پیدا ہوا ان کو رفیق بنائے تو وہ ظالم ہے۔ ایسے ہی اور بہت آیات ہیں اور احادیث میں بے شمار جگہ موجود ہے۔ پس بعد فرض تسلیم اس بات کے کہ اقامت مظہر کی موضع مضمر کی ہے یہی معنی ہوں گے کہ وہ تمہارے دین کے موافق عمل درآمد کریں گے۔ جیسا کہ ان آیات میں یہی معنی ہیں۔ چنانچہ متقدمین نے بھی ایسے الفاظ کے یہی معنی کئے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے۔ ’’قال ابن ابی ذئب اتدری ما امکم منکم قلت وتخبرنی قال فامکم بکتاب ربکم‘‘ اور فتح الباری میں ہے۔ ’’قال ابوذر الہروی حدثنا الجوزقی عن بعض المتقدمین قال معنی قولہ وامامکم منکم یعنی یحکم بالقرآن لا بالانجیل قال الطیبی المعنی یؤمکم عیسیٰ حال کو نہ فی دینکم‘‘
قولہ… شراح حدیث الفاظ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔ ’’حکماً والمعنی انہ ینزل حاکما بہذہ الشریعۃ فیکسر الصلیب والمقصود ابطال النصرانیۃ والحکم بشرع الاسلام وکذاقولہ ویقتل والخنزیر ومعناہ تحریم اقتنائہ واکلہ واباحۃ قتلہ کذا قال الطیبی ویضع الحرب فی روایۃ الکشہمینی ولجزیۃ والمعنی ان الدین یصیر واحد افلا یبقی احد من اہل الذمۃ یؤدی الجزیۃ‘‘ حاصل مطلب یہ ہے کہ اس جگہ دو نسخے ہیں۔اوّل اور اصل یضع الحرب اور دوسرا یضع الجزیۃ درصورت نسخہ اوّل کے مدعا نہایت واضح ہے کہ اس میں گنجائش تاویل کی نہیں ہے اور درصورت نسخہ دوم کہ اگرچہ تاویل بعید خلاف مقصود بعض نے کی ہے۔ لیکن وہ مقبول نہیں کہ مخالف نسخہ اوّل واصل کے ہے اور تفسیر کلام نبوی ایسی چاہئے کہ مصداق ہو۔ ’’یفسر بعضہا بعضاً‘‘ کی اور دوسری خوبی اس معنی میں یہ بھی ہے کہ منسوخ ہونا احکام شرعیہ خاتم النبیین کا بھی لازم نہیں آتا۔ بخلاف معنی دوسرے کے کہ وہ مستلزم ہے۔ نسخ حکم جزیہ کو مگر بتاویل بعید۔
تحقیق یضع الحرب
بعون اﷲ تعالیٰ اوّلاً میں کچھ ابتداء حال نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا بیان کرتا ہوں۔ جس سے ناظرین کو صاحب رسالہ کے مطلب باطل ہونے پر بصیرت ہو۔ تو واضح رہے کہ