قولہ… لیکن اس تحریری بحث کے لئے میرا اور آپ کا دہلی میں مقیم رہنا ضروری نہیں۔ جب کہ تحریری بحث ہے تو دور رہ کر بھی ہوسکتی ہے۔
اقول… یہ امر بھی معاہدہ وشرط کے خلاف ہے۔ کیونکہ معاہدہ وشرط یہ ہے کہ تحریری بحث بالمشافہ ہو ورنہ آپ کا دہلی میں آنا عبث تھا اور مجھ کو دہلی میں طلب فرمانا بھی عبث۔ اگر آپ پہلے سے یہ سوچ لیتے تو مجھے اور آپ دونوں کو دہلی کے جانے کی تکلیف کیوں کرنی پڑتی۔ پس آپ کی اس تحریر سے ہر منصف مزاج بخوبی آپ کی گریز تسلیم کر لے گا اورغالباً آپ کو بھی اس تحریر کے بعد جس سے صریح گریز ٹپک رہی ہے۔ پشیمانی ہوئی ہوگی اور آئندہ آپ کسی سے مناظرہ کا نام نہ لیں گے اور نہ کوئی اور اہل علم آپ کو بایں پریشان خیالی مناظر بنانا چاہئے گا۔ جب تک کہ آپ کے حیلہ جوئیوں کا پورا بندوبست نہ کرے۔ والحمد اﷲ اوّلًا وآخرا وظاہرا وباطنا وآخردعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین وصلی اﷲ علی خیر خلقہ محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین!
نظم دلپذیر ریختہ طبع وقاد وذہن نقاد گلشن آرای شیوا بیانے
منشی سید شکیل احمد صاحب سہسوانے سلمہ اﷲ تعالیٰ
دین احمد کا زمانہ سے مٹا جاتا ہے
قہر ہے اے مرے اﷲ یہ ہوتا کیا ہے
عافیت تنگ ہے بے دینوں سے دینداروں کی
قائم اب تک ہے یہ دنیا سبب اس کا کیا ہے
نفخ میں صور کے یارب ہے تامل کیسا
اب قیامت کے بپا ہونے میں وقفہ کیا ہے
ٹوٹ پڑتا نہیں کس واسطے یا رب یہ فلک
کیوں زمین شق نہیں ہوتی یہ تماشا کیا ہے
کس لئے مہدیٔ برحق نہیں ظاہر ہوتے
دیر عیسیٰ کے اترنے میں خدایا کیا ہے
عالم الغیب ہے آئینہ ہے تجھ پر سب حال
کیا کہوں ملت اسلام کا نقشہ کیا ہے
رات دن فتنوں کی بوچھاڑ ہے بارش کی طرح
گر نہ ہو تیری صیانت تو ٹھکانا کیا ہے
مضمحل ملت بیضا ہے مسلمان ضعیف
ملحدوں کی جو بن آئے تو اچنبا کیا ہے
فکر بے دینوں کو بس یہ ہے کہ ہر پہلو سے
مال دنیاکا ملے دولت عقبے کیا ہے
حائل منزل مقصود ہیں قطاع طریق
نقد ایمان کے تحفظ کا طریقہ کیا ہے
شغل یاروں کا ہے تحریف کتاب وسنت
دین جاتا ہے تو جائے انہیں پروا کیا ہے
یا رب اس دور پر آشوب میں ایمان قائم
تو ہی رکھے تو رہے ورنہ بھروسا کیا ہے