نظم نمبر:۴ … افہام وتنبیہ بہ مرزائیاں سفیہ
مرزائیو کیا کہتا ہے اسلام تمہارا، گر تم ہو مسلمان
عیسیٰ پر ہے کیوں سحر کا الزام تمہارا، کیا ہے یہی ایمان
اس امت مرحومہ کو اندھی جو بنائے، ٹھٹھے میں اڑائے
صد حیف وہ مرزا ہے دلارام تمہارا، اے فرقہ ناداں
تم صاف لگے لکھنے اسے مرسل یزداں، مامورز رحمن
شاہد ہے یہ گنجینہ اوہام تمہارا، دیکھو سرعنوان
کہتے ہو رسل کو عمل الترب کا عامل، ناقص تھے نہ کامل
دشنام سے کچھ کم نہیں یہ کام تمہارا، شیطان کے اخوان
جب لم یمت آیا ہو حدیث نبوی میں، کیا اور سند دیں
معنا ہی توفی ہے بہت خام تمہارا، موجود ہے فرقان
تم ماصلبوا کو صلبوا سمجھو غضب ہے، کیا تم سے عجب ہے
مانے نہ اگر لم یمت الہام تمہارا، کاین نیست بقرآں
وہ روح خدا لائیں گے تشریف مکرر، ہے یونہی مقدر
کرتے حسن بصری ہیں افہام تمہارا، خوش ان سے ہو یزداں
زور اس پہ ہے سولی پہ چڑھ گیا عیسیٰ، اب آئے گا پھر کیا
بس ورد یہی ہے سحر و شام تمہارا، حیف ازراہ طعناں
کافر تھے کہا کرتے ابھی لادے، قیامت بروقت ندامت
عیسیٰ کو اتارے یہ پیغام تمہارا، جب ہوتے ہو حیراں
شب پانچ ستمبر کی سال نو دو چار، دوڑی خبرتار
تھا قادیاں میں دیدنی کہرام تمہارا، ہر ایک تھا نالاں
دی روسیا ہی آتھم وسلطان نے تم کو، دجال کے چیلو
شیوہ ہوا ہر بات میں دشنام تمہارا، تہذیب کے قرباں
تم داڑھیاں منڈوا کے بھی کچھ باز نہ آئے، جوہر یہ دکھائے
کیا ہوتا ہے دیکھیں ابھی انجام تمہارا، اے بے سروساماں