جن کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں) اترنے والے ہیں اور دوسری روایت صحیح میں اس طرح ہے۔ ’’الانبیاء اخوۃ لعلّات امہاتہم شتی ودینہم واحد وانا اولی الناس بعیسیٰ بن مریم لانہ لم یکن بینہ وبینی نبی وانہ نازل‘‘ یعنی انبیاء باپ کی طرف سے بہائی ہوتے ہیں۔ مائیں (یعنی فروعات دین) ان کی مختلف ہوتی ہیں اور دین ایک ہی ہوتا ہے اور میں اولیٰ الناس ہوں۔ عیسیٰ بن مریم کے ساتھ۔ کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نہیں اور بے شک وہ اترنے والے ہیں، اور بیشمار حدیثیں ہیں۔ جن میں نبی صاحبﷺ نے نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصریح فرمائی ہے۔ چند احادیث اس عاجز نے بھی اوپر نقل کر کے سنادی ہیں اور نیز کیا اہل کتاب نے اپنے خیالوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی غلطی میں ڈال دیا اور بہکادیا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں قریب قیامت اتر کر دجال کو قتل کروں گا۔ مجھے اﷲتعالیٰ نے یہ وعدہ دیا ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں موجود ہے کہ شب معراج میں ہمارے نبی صاحبﷺ سے انہوں نے یہ بات کہی۔ چنانچہ اوپر گزر چکا۔ پس یہ کہنا کہ اس خیال کی تصریح متن احادیث صحاح میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ کیسی نادانی کی بات ہے اور قرآن مجید سے بھی اس کا ثبوت اخیر رسالہ میں انشاء اﷲ بیان کیا جاوے گا۔ ناظرین انشاء اﷲ جان لیں گے کہ یہ قول صاحب رسالہ کا کہ قرآن وحدیث میں اس خیال کی تصریح نہیں محض افراء ہے اﷲ پر اور اس کے رسولﷺ پر۔ ’’ان الذین یؤذون اﷲ ورسولہ لعنہم اﷲ فی الدنیا والآخرۃ واعدلہم عذاباً مہینا‘‘
قولہ… اندریں صورت لازم ہے کہ مرزاقادیانی کی تکذیب اس دعوے میں ہرگز نہ کی جاوے۔ کیونکہ ایسی حالت میں قاعدۂ تصدیق اﷲتعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں یوں مقرر فرمایا ہے۔ ’’وقد جاء کم بالبینات من ربکم وان یک کاذباً فعلیہ کذبہ وان یک صادقاً یصبکم بعض الذی یعدکم ان اﷲ لا یہدی من ہو مسرف کذاب‘‘
اﷲ اور اس کے رسول پر افتراء
اقول… وباﷲ التوفیق! واضح رہے کہ یہ اﷲ جل شانہ نے موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے ایک شخص کے قول کی حکایت بیان فرمائی ہے۔ چونکہ صاحب رسالہ کو پوری نقل کرنا مضر تھا اس واسطے تھوڑی نقل کی۔ پوری آیت کریمہ یوں ہے۔ ’’وقال رجل مؤمن من اٰل فرعون یکتم ایمانہ اتقتلون رجلاً ان یقول ربی اﷲ وقد جاء کم بالبینات من ربکم وان یک کاذباً فعلیہ کذبہ‘‘ اور بولا ایک مرد ایماندار فرعون کے لوگوں میں سے جو چھپاتا تھا۔ اپنا ایمان کیا مارے ڈالتے ہو۔ ایک مرد کو اس پر کہ کہتا ہے میرا رب اﷲ ہے