اختلاف ہے کہ اٹھائے جانے سے پہلے ان پر موت طاری ہوئی یا نہیں۔ جمہور اہل اسلام کا یہ مذہب ہے کہ موت طاری نہیں ہوئی اور یہی صحیح ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ موت طاری ہوئی۔ لیکن اﷲتعالیٰ نے پھر زندہ کر کے مع الجسد اٹھالیا۔ یہ کوئی بھی نہیں کہتا ہے کہ اب وہ مردہ ہیں۔ پس جو مذہب مرزاقادیانی نے احداث کیا ہے یہ قول کسی کا اہل اسلام میں سے نہیں ہے۔ اب یہاں سے شروع کی جاتی ہے نقل ان رقعوں وپرچوں کی جو مباحثہ دہلی کے متعلق طرفین سے لکھی گئی۔
نقل جواب اشتہارات مرزاقادیانی از جانب راقم
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
حامداً ومصلیاً ومسلماً
ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذہدیتنا وہب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب۔ اما بعد!
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ!
مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے اتباع پر مخفی نہ رہے کہ آپ کے اشتہارات مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۸۹۱ء ومورخہ ۶؍اکتوبر سنہ مذکور جو بمقابلہ جناب مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی کے شائع ہوئے ہیں۔ دیکھنے میں آئے معلوم نہیں کہ جناب میاں صاحب نے کیا جواب دیا۔ لیکن خاکسار محض بنظر احقاق حق وابطال باطل صرف حق تعالیٰ کی نصرت پر اعتماد کر کے آپ کے ساتھ مناظرے کے لئے تیار ہے اور شروط مسلمہ مندرجہ اشتہار ۶؍اکتوبر کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن شرط ثالث میں تھوڑی ترمیم چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تو آپ خود ہی حلفاً اقرار کرتے ہیں کہ اگر میں اس بحث وفات عیسیٰ میں غلطی پر نکلا تو دوسرا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا۔ اس قدر اس میں اور زیادہ کر دیجئے کہ اگر میں اس بحث وفات عیسیٰ میں صواب پر نکلا تو صرف اتنی بات سے میرا اصل دعویٰ یعنی عدم نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور میرا مسیح موعود ہونا ثابت نہ ہوگا۔ بعد اختتام بحث وفات عیسیٰ علیہ السلام کے ان دونوں امور میں بھی بلاعذر بحث ضرور کی جاوے گی اور جو کوئی طرفین میں سے عذر کرے گا تو گریز پر حمل کیا جائے گا اور نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف ثبوت وفات عیسیٰ علیہ السلام سے باطل متصور نہ ہوگا۔ آپ کا دعویٰ جو تمام اہل اسلام کے مخالف سمجھا جاتا ہے۔ وہ تو یہی دعویٰ عدم نزول عیسیٰ علیہ السلام اور دعویٰ آپ کے مسیح موعود ہونے کا ہے۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ!
المعلن خاکسار محمد بشیر عفی عنہ از بھوپال محلہ گوجرپورہ ۹؍ربیع الاوّل ۱۳۰۹ھ