معلوم نہیں تھا۔ مولوی احمد علی صاحب کو پہنادئیے۔ اس کے بعد مولوی احمد علی صاحب نے وعظ فرمانا شروع کر دیا اور مولوی احسن قادیانی ایک گوشہ مسجد میں جا بیٹھے۔ نماز مغرب کا وقت ہوا۔ جلسہ وعظ برخاست ہوا اور ہر دو مولوی صاحب ہم بغل ہوکر ملے اور مولوی احسن قادیانی نے تعریف وعظ کی۔
۲۵؍جولائی ۱۸۹۵ء کو کسی قسم کی ہر دو جانب سے مسئلہ متنازعہ میں تین بجے شام تک گفتگو نہیں ہوئی۔ صرف مولوی احسن قادیانی نے ۲۴؍جولائی ۱۸۹۵ء کو مولوی احمد علی صاحب کے نام ایک خط دوبارہ جلسہ منعقد ہونے کی غرض سے لکھا اور وقت ۴؍بجے شام کے اس خاکسار کوپیرجی صاحب کے مکان پر بلاکر دیا کہ مولوی احمد علی صاحب کے پاس لے جاؤ۔ جس کا یہ مضمون تھا۔
خط محمد احسن قادیانی
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم!
محب مکرم حضرت مولوی احمد علی صاحب۔ بروز تاریخ ۲۴؍جولائی ۱۸۹۵ء ذریعہ رقعہ نیاز بھی عرض کیاگیا کہ ایک گھنٹہ آپ عاجز کو مرحمت فرمادیں اور ایک گھنٹہ جناب کے واسطے اور حسب شرائط میں نے بیاد سخن درمیان سخن، ضبط تقریر وتحریر وسکوت دیگر صاحبان حاضرین از طرفین آپ کے شبہ پیش کردہ میں گفتگو ہو جاوے۔ لیکن آپ نے دیر وزہر گز اس کو قبول نہ فرمایا اتمام الحجۃ آج پھر عرض کیا جاتا ہے کہ ان شرائط کو جو عند العقل والنقل ضروریات سے ہیں۔ قبول فرماکر جلسۂ منعقد فرمالیجئے۔ والسلام! مورخہ ۲۵؍جولائی ۱۸۹۵ئ، الراقم محمد احسن
کمترین تحریر مذکورہ بالا لے کر مولوی احمد علی صاحب کے خدمت میں مسجد پلٹن بازار میں پہنچا۔ مولوی صاحب نے خط کو ملاحظہ فرما کر جواب لکھنے کو تیار تھے کہ مولوی احسن قادیانی وپیر جی خدا بخش صاحب بھی مولوی احمد علی صاحب کے پاس آگئے۔ بدیں وجہ جواب خط ملتوی رہا۔ مولوی احسن قادیانی نے صرف وہی گفتگو شروع کی کہ مولوی صاحب کیوں ایک گھنٹہ کی اجازت نہیں ہوئی۔ بجواب اس کے مولوی احمد علی صاحب نے فرمایا کہ آپ کبھی الحمد پڑھنی شروع کر دیتے ہیں اور کبھی وعظ کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ مناظرہ میں وعظ سے کیا تعلق ہے؟ جیسا میں نے اپنی شبہ کو تحریر مرزاقادیانی میں اور خلاف تحریر مرزاقادیانی کا حدیث نبوی میں دکھلادیا۔ ایسا ہی