کیوں جناب احسن المناظرین صاحب یہ آزادی انہیں کے واسطے ہے جو آپ تک نہ آسکیں؟ یا جو آپ کے اشتہاروں کو دیکھ کر طالب وجویا ہو کر دور دراز سفر طے کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہو۔ اس میں اس کا بھی حصہ ہے؟ پیٹ بھر ون کی دعوت کا اشتہار دینا اور گھر پر آئے بھوکے کو کھدیڑنا یہ کیا انصاف ہے؟ افسوس کہ میں اس قدر دور دراز سفر طے کر کے آپ کے دروازہ پر آؤں اور آپ گھر سے باہر نکلنے کی بھی تکلیف نہ فرمائیں اور اگر آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ میرے ان اقوال میں کہیں دعویٰ کا لفظ نہیں ہے تو میرا ہی قول صحیح ہے کہ نہ احقر کسی امر کا مدعی تو جواب اس کا یہ ہے کہ آپ کی تحریر میں دعویٰ کا لفظ بھی موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
۱۱… ’’یہ دعویٰ میرا بلابیّنہ نہیں… اگر کسی کی آنکھوں میں کچھ فتور ہو تو کحل الجواہر بھی حاضر ہے۔‘‘ حضرت احسن المناظرین صاحب میدان مناظرہ میں حسب اقرار خود تشریف لائیے اور وہ بیّنہ بیان فرمائیے اور کحل الجواہر کی ڈبیہ بھی کھولیئے۔ یہ فقیر انہیں بیّنہ کا طالب اور اسی کحل الجواہر کا مشتاق ہو کر آیا ہے۔ دل آرزومند کو ان بیّنہ سے اور دیدۂ مشتاق کو اس کحل الجواہر سے محروم رکھنا ناانصافی نہیں تو کیا ہے؟ اب رہی یہ بات کہ آپ کا شعار کسی مؤمن بھائی کی غیبت کرنا نہیں ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے۔
قولہ… ’’البتہ یہ اپنا شعار ہے کہ کسی اپنے مؤمن بھائی کو غیبت وغیرہ سے یاد نہیں کرتا اور جملہ اپنے مؤمنین اخوان کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہے۔‘‘
جواب… کیا جملہ اخوان میں مولوی عبدالحق صاحب نہیں ہیں۔ جن کے الہام پر آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اگر ایک ہزارالہام کا دعویٰ کریں گے تو بلابیّنہ وبرہان اس کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔‘‘ (اعلام الناس حصہ اوّل ص۵۱)
اور اگر یہی حسن ظن ہے تو سرسید بھی تو مسلمان ہے۔ اس کے ساتھ بدظنی کا کیا سبب۔ اب میں آپ کے مسیح کے چند اقوال پیش کر کے آپ سے جواب کا طالب ہوں کہ یہ کس کا شعار ہے۔
اقوال مرزاغلام احمد قادیانی مسیح احسن المناظرین مولوی محمد احسن امروہی
۱… ’’اے نفسانی مولویو اور خشک زاہد وتم پر افسوس… تم ان فقیہوں اور فریسیوں سے کچھ کم ہو جو حضرت مسیح کے وقت میں دن رات نفس پرستی میں لگے ہوئے تھے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک کافر کا مؤمن ہو جانا تمہارے ایمان لانے سے زیادہ تر آسان ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۵،۶، خزائن ج۳ ص۱۰۵ ملخص)