وغواص واٰخرین مقرنین فی الاصفاد‘‘ پھر دیکھو ان کے واسطے اﷲ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ہذا عطائنا فامنن اوامسک بغیر حساب‘‘ بھلا دجال کو اس سے کیا نسبت ہے؟ پھر سلیمان علیہ السلام کی مقبول دعاکا کیا خلاف لازم آیا۔ سبحان اﷲ! کیسی کیسی باتیں ابطال حق کے لئے سوجھتی ہیں۔ اچھے اس کے مجدد ہوئے۔
ایہا الناس! یہ بات واضح ہوگئی کہ جس قدر نصوص کہ دربارۂ نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وارد ہیں اور جتنے تصریحات نبویہ مسیح دجال کے باب میں آئی ہیں۔ سب اپنی حقیقت پر ہیں اور سب سے مراد وہی معنی ہیں کہ جن پر وہ صریحۃ الدلالۃ اور بین المراد ہیں۔ نہ کوئی مجاز ہے نہ کوئی استعارہ۔ اس میں بلاوجہ مجاز ماننا بالکل تحریف اور موجب الحاد ہے۔ جیسا شواہد میں بالتفصیل گزر چکا۔ چونکہ ہمارا مقصد اصلی اسی بات کو ثابت کرنا تھا تو یہ بحمد اﷲ وحسن توفیقہ خوب مفصلاً ثابت ہوگئی۔ لہٰذا اب جو آگے تاویل لیلۃ القدر کی (کہ جو ان کے پیر نے کی ہے) بیان کی اس میں بحث کر کے رسالہ کو طول دینا مناسب نہ سمجھا۔ انہیں کے رسائل کے جواب میں اس میں کلام مفصلاً انشاء اﷲ کیا جاوے گا۔
بحث وشرائط مباہلہ
قولہ… اس شخص کو مسئلہ مباہلہ بھی نہیں معلوم کہ مباہلہ کس وقت میں ہونا چاہئے اور کیا کیا شرائط اس کے کتاب وسنت میں آئے ہیں۔ لہٰذا واسطے آگاہی مسلمانوں کے وہ شرائط تفسیر فتح البیان سے لکھی جاتی ہیں۔ ’’قال فی الجمل وقع البحث عند شیخنا العلامۃ الدوانی قدس سرہ جواز المباہلہ بعد النبیﷺ فکتب رسالۃ فی شروطہا المستنبطۃ من الکتاب والسنۃ والآثاروکلام الائمۃ وحاصل کلامہ فیہا انہا لا تجوز الافی امرمہم شرعاً وقع فیہ اشتباہ وعناد ولا یتیسر رفعہ الا بالمباہلۃ فیشترط کونہا بعد اقامۃ الحجۃ والسعے فی ازالۃ الشبہۃ وتقدیم النصح والانذار وعدم نفع ذلک ومساس الضرورۃ الیہا انتہی‘‘
قولہ… اگر کوئی شخص کہے کہ مرزاقادیانی نے خود مولوی اسماعیل صاحب ساکن علی گڑھ کو واسطے مباہلہ کے رسالہ فتح اسلام میں طلب کیا ہے۔ الخ! تو جواب اس کا یہ ہے کہ مرزاقادیانی سے اوّلاً گفتگو زبانی اور بالمواجہ بمقام علی گڑھ مولوی اسماعیل صاحب سے ہوچکی ہے اور مرزاقادیانی ان کے اعتراض کا جواب شافی دے چکے ہیں۔ معہذا مولوی اسماعیل صاحب نے مرزاقادیانی پر یہ افتراء کیا کہ ان کے یہاں آلات رصد اور نجوم کے موجود ہیں۔ اس کے ذریعہ سے یہ اخبارات