موت کے وقت ہوتا ہے دو جگہ قرآن مجید میں وہ قبض روح بھی مراد لیا ہے۔ جو نیند کی حالت میں ہوتا ہے۔ لیکن اس جگہ قرینہ قائم کر دیا ہے۔ جس سے سمجھا گیا ہے کہ حقیقی معنی توفی کے موت ہی ہیں۔
اقول… یہ کلام دوامر پر دال ہے۔
اوّل… یہ کہ توفی کے معنی حقیقی موت ہی ہیں اور دیگر معنی مجازی ہیں۔
دوم… یہ کہ موت کے ارادہ کے لئے قرینہ قائم نہیں کیا جاتا ہے اور دیگر معانی کے لئے قرینہ قائم کیا جاتا ہے اور یہ دونوں امر منظور فیہ ہیں۔ بیان اس کا یہ ہے کہ توفی کے اصل معنی نہ موت کے ہیں نہ اس قبض روح کے جو موت کے وقت ہوتا ہے۔ بلکہ اصل معنی اس لفظ کے قبض بتمامہ کے ہیں۔
بیضاوی میں ہے: ’’والتوفی اخذ الشیٔ وافیا والموت نوع منہ‘‘
اور بیضاوی میں ہے: ’’فان اصلہ قبض الشیٔ بتمامہ‘‘
تفسیر ابوالسعود میں ہے: ’’التوفی اخذ الشیٔ وافیاً والموت نوع منہ‘‘
تفسیر کبیر میں ہے: ’’التوفی اخذ الشیٔ وافیاً والموت نوع منہ‘‘
اور بھی اس میں ہے: ’’التوفی جنس تحۃ انواع بعضہا بالموت وبعضہا بالاصعاد الیٰ السمائ‘‘
تفسیر ابوالسعود میں ہے: ’’واصلہ قبض الشیٔ بتمامہ‘‘
تفسیر کبیر میں ہے: ’’فثبت ان الموت والنوم یشترکان فی کون کل واحد منہا توفیا للنفس‘‘
قسطلانی میں ہے: ’’والتوفی اخذ الشیٔ وافیاً والموت نوع منہ‘‘
اور موت ونوم کو توفی اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اخذ الشیٔ پایا جاتا ہے۔ پس معنی حقیقی واصل موضوع لہ توفی کا یہ معنی کلی ہیں اور موت ونوم وغیرہا معنی حقیقی ومعنی موضوع لہ کے افراد ہیں اور علم اصول وبلاغت میں ثابت ہوا ہے کہ وہ لفظ جو ایک معنی کلی کے لئے وضع کیاگیا ہے جب بعض افراد میں استعمال کیا جائے گا تو یہ استعمال مجازی ہوگا اور وہ بعض افراد معنی مجازی قرار پائیں گے۔ بلاقرینہ صارفہ ومعنی کلی ہی سمجھے جائیں گے اور بعض بعض افراد کے لئے قرینہ کی ضرورت ہوگی۔ اسی لئے قرآن مجید میں جہاں توفی کا لفظ بمعنی موت آیا ہے وہاں قرینہ قائم کیاگیا ہے۔ جیسا کہ نوم کے لئے قرینہ قائم کیاگیا ہے۔ مرزاقادیانی نے جو خود (ازالہ اوہام ص۳۳۰تا۳۳۲، خزائن