بیان کا کچھ بھی حرج نہیں۔ کیونکہ ہمارے طور پر برعایت خالص استقبال کے پھر اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے سب اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔ الیٰ قولہ! اب اگر ہماری اس تاویل میں آپ کوئی جرح کریں گے تو وہی جرح آپ کی تاویل میں ہوگی۔
اقول… یہ معنی بھی آپ کے باطل ہیں۔ بچندہ وجوہ:
اوّل… یہ کہ اس معنی پر صرف نص کا ظاہر سے لازم آتا ہے۔ بغیر صارف قطعی کے کیونکہ ظاہر نص یہی ہے کہ ضمیر قبل موتہ کی راجع ہے۔ طرف عیسیٰ علیہ السلام کے اور صارف قطعی کوئی یہاں پایا نہیں جاتا ہے۔
دوم… قبل موتہ کی قید اس وقت لغو ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ایمان لانے والا اپنے مرنے سے پہلے ہی ایمان لاتا ہے۔ ایمان بعد الموت تو متصور ہی نہیں۔ اس وقت یہ کلام مجانین کا ساکلام ہوا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ آج میں نے مرنے سے پہلے نماز پڑھ لی اور مرنے سے پہلے کھانا کھالیا اور مرنے سے پہلے کچہری گیا اور مرنے سے پہلے سبق پڑھا وقس علیٰ ہذا تو کیا اس کو کوئی شخص عاقل سمجھے گا۔ ہرگز نہیں۔
قولہ… پس گو ابن جریر یا ابن کثیر کا اپنا مذہب کچھ ہو یہ شہادت تو انہوں نے بڑے بسط سے بیان کر دی ہے کہ اس آیت کے معنی اہل تاویل میں مختلف فیہ ہیں اور ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں کہ مسیح ابن مریم کے نزول اور حیات پر قطعی دلالت اس آیت کی ہرگز نہیں اور یہی ثابت کرنا تھا۔
اقول… اگرچہ اس آیت کی تاویل میں اختلاف ہے۔ مگر مجرد اختلاف قطعیۃ کو رد نہیں کر سکتا ہے۔ ہم نے اوپر ثابت کر دیا کہ ظاہر نص قرآنی یہی ہے کہ ضمیر بہ وموتہ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف عائد ہے اور اس ظاہر سے کوئی صارف قطعی پایا نہیں جاتا ہے اور صرف نص کا ظاہر سے بغیر صارف قطعی جائز نہیں بلکہ الحاد ہے اور بقیہ احتمالات ومعانی کو تحقیقی والزامی دونوں طور پر بفضلہ تعالیٰ باطل کر کے ہم نے دکھلادیا۔ ’’الحمد ﷲ علی ذلک حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کما یحب ویرضی‘‘
قولہ… واضح ہو کہ قرآن میں ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ (نسائ:۵۵)‘‘ موجود ہے۔ قرآن کریم کے عموم محاورہ پر نظر ڈالنے سے قطعی ویقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تمام قرآن میں توفی کا لفظ قبض روح کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ یعنی اس قبض روح میں جو موت