قطعاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے اور ضمیر علیہم کا مرجع یقینا وہ اہل کتاب ہیں۔ جن کے ایمان لانے کا اس آیت میں ذکر ہے اور گواہ ہونا جب ہی ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے ایمان لانے کے زمانہ مین ان میں زندہ موجود ہوں۔
چہارم… اگر ضمیر بہ کی آنحضرتﷺ کی طرف ہوتی تو واجب تھا کہ بجائے یہ کہ بک ہوتا۔ کیونکہ آنحضرتﷺ کے لئے ماقبل اس آیت کی ضمیر خطاب کی ہے۔ ’’قال اﷲ تعالیٰ یسئلک اہل الکتاب ان تنزل علیہم کتاباً (نسائ:۱۵۳)‘‘ اور مابعد یہی ضمیر خطاب کی ہے۔ ’’قال اﷲ تعالیٰ لکن الراسخون فی العلم منہم والمؤمنون یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک (النسائ:۱۶۲)‘‘
’’قال تعالیٰ انا اوحینا الیک (النسائ:۱۶۴)‘‘
’’وقال تعالیٰ ورسلاً قد قصصنہم علیک من قبل ورسلاً لم نقصصہم علیک (النسائ:۱۶۴)‘‘
’’وقال تعالیٰ لکن اﷲ یشہد بما انزل الیک (النسائ:۱۶۶)‘‘
پس درمیان میں جو ضمیر غائب کے لائی گئی۔ اس کے تصریح کی کوئی وجہ سوائے قاعدۂ التفات کے نہیں معلوم ہوتی ہے۔ پس یہاں قائدہ التفات موافق علم معانی کے بیان کرنا چاہئے۔
پنجم… جب ضمیر بہ وموتہ کی غیر عیسیٰ عم کی طرف راجع ہوئی تو اس کو کچھ علاقہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ سے نہ ہوا اور حالانکہ ماقبل وما بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے۔ پس درمیان میں بلافائدہ کلام اجنبی کالانا خلاف بلاغت ہے۔
ششم… روایت عکرمہ کی یہ معنی جو آپ نے کہے ہیں۔ اس کے لئے کوئی سلف نہیں ہے۔ خود عکرمہ کا لفظ بھی صراحۃً اس کے خلاف پر دلالت کرتا ہے۔ ابن کثیر میں اسی روایت میں ہے۔ ’’قال عکرمۃ لایموت النصرانی ولا الیہودی حتی یؤمن بمحمدﷺ‘‘ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ہر اہل کتاب اپنے مرنے کے وقت آنحضرتﷺ پر ایمان لاتا ہے۔ یعنی زہوق روح کے وقت پس وہ معنی جو آپ نے بیان کئے ہرگز صحیح نہیں ہو سکتے ہیں۔ بالجملہ اس معنی کے رد کے لئے وہی دلیل تحقیقی جو اوپر لکھی گئی کافی ہے۔
قولہ… اور اگر آپ اپنی ضد نہ چھوڑیں اور ضمیر لیؤمنن بہ کو خواہ نخواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ہی پھیرنا چاہیں تو باوجود اس فساد کے جس کا نقصان آپ کی طرف عائد ہے۔ ہماری طرز