اقول… ظاہر اس کلام کا یہ ہے کہ عکرمہ صحابہ میں داخل ہیں۔ حالانکہ یہ غلط محض ہے۔ اس روایت کی سند اگرچہ عکرمہ تک نہایت صحیح ہے۔ مگر یہ قول تابعی ہے۔ مخالف ظاہر نص قرآنی کے اور قول تابعی صارف نص کا ظاہر سے ہو نہیں سکتا ہے۔ علاوہ اس کے اس تقدیر پر آیۃ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (نسائ:۱۵۹)‘‘ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اجنبیت محضہ ہے۔ حالانکہ ما قبل وما بعد میں ذکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے اور اجنبی کے ساتھ بلافائدہ فصل خلاف بلاغت ہے۔ بالجملہ اس معنی کے رد کے لئے بھی وہ دلیل تحقیقی جو ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ جو سارے معانی واحتمالات مخالفہ کو رد کرتی ہے، کافی ہے۔
قولہ… اور یہ روایت قوی ہے۔ کیونکہ مجرد مسیح ابن مریم پر ایمان لانا موجب نجات نہیں ٹھہر سکتا۔
اقول… بعد نزول مسیح ابن مریم کے مجرد مسیح ابن مریم پر ایمان لانا موجب نجات ہے۔ اس لئے کہ بعد نزول کے حضرت مسیح ابن مریم شریعت محمدیہﷺ کے متبع ہوکر رہیں گے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ پس مسیح پر ایمان لانا مستلزم ہے۔ خاتم الانبیائﷺ پر ایمان لانے کو اور خاتم الانبیائﷺ پر ایمان لانا بلاشبہ موجب نجات ہے۔ کیونکہ وہ ایمان تمام نبیوں پر ایمان لانے کو مستلزم ہے۔
قولہ… اور بموجب روایت عکرمہ برعایت آپ کے نحوی قاعدہ کے یہ معنی ٹھہریں گے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے موجودہ اہل کتاب سب کے سب نبیﷺ پر اپنی موت سے ایمان لے آئیں گے۔ جس ایمان کے طفیل مسیح ابن مریم پر بھی ایمان لانا انہیں نصیب ہو جائے گا۔
اقول… یہ معنی باطل ہیں۔ بچند وجوہ:اوّل… یہ کہ ظاہر قرآن یہ ہے کہ ضمیر بہ موتہ کی راجع طرف حضرت مسیح کے ہے اور صارف قطعی یہاں کوئی موجود نہیں ہے اور بغیر صارف قطعی صرف النص عن الظاہر غیر جائز ہے۔
دوم… قبل موتہ کی قید اس وقت لغو ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر ایمان لانے والا اپنی موت سے پہلے ایمان لاتا ہے۔ ایمان بعد الموت متصور نہیں۔ اس وقت اسی قدر کہنا کافی تھا۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ‘‘
سوم… یہ کہ آیت ’’ویوم القیمۃ یکون علیہم شہیداً (نسائ:۱۵۹)‘‘ میں ضمیر یکون