قولہ… مجرد ضعیف حدیث کا بیان کرنا اس کو بکلی اثر سے روک نہیں سکتا۔
اقول… مسلم ہے کہ بکلی اثر سے روک نہیں سکتا۔ مگر صارف قطعی ہونے سے روکتا ہے اور بغیر صارف قطعی صرف نصوص عن الظواہر جائز نہیں ہے۔
قولہ… امام بزرگ حضرت ابوحنیفہ فخرالائمہ سے مروی ہے کہ میں ایک ضعیف حدیث کے ساتھ بھی قیاس کو چھوڑ دیتا ہوں۔
اقول… امام بزرگ نے تو صرف یہی کہا ہے کہ ضعیف حدیث کے ساتھ میں قیاس کو چھوڑ دیتا ہوں۔ یہ تو نہیں کہا کہ ضعیف حدیث کے ساتھ ظاہر نص قرآنی کو چھوڑ دیتا ہوں۔ فاین ہذا من ذاک!
قولہ… اب کیا جس قدر حدیثیں صحاح ستہ میں بہ باعث ضعف راویوں کے قابل جرح یا مرسل یا منقطع الاسناد ہیں۔ وہ بالکل پایۂ اعتبار سے خالی اور بے اعتبار محض ہیں اور کیا وہ محدثین کے نزدیک موضوعات کے برابر سمجھی جاتی ہیں۔
اقول… سب بے اعتبار محض اور موضوعات تو نہیں ہیں۔ لیکن صارف قطعی بھی نہیں ہوسکتی ہیں۔
قولہ… از انجملہ ایک یہ کہ اہل کتاب کا لفظ اکثر قرآن کریم میں موجودہ اہل کتاب کے لئے جو آنحضرتﷺ کے زمانہ میں موجود تھے بیان فرمایا گیا ہے۔ الیٰ قولہ! پھر مولوی صاحب کے پاس باوجود اس دوسرے معنی ابن عباسؓ اور عکرمہ کے کون سی قطعی دلیل اس بات پر ہے کہ اس ذکر اہل کتاب سے وہ لوگ قطعاً باہر رکھے گئے ہیں۔
اقول… دلیل اس پر یہی ہے کہ ظاہر نص قرآنی یہی ہے کہ دونوں ضمیریں بہ وموتہ کی حضرت عیسیٰ عم کی طرف ہی عائد ہیں اور کوئی یہاں صارف قطعی پایا نہیں جاتا ار اصول وکلام میں ثابت ہے کہ ’’النصوص تحمل علیٰ ظواہرہا وصرف النصوص عن ظواہرہا الحاد‘‘
قولہ… از انجملہ ایک یہ کہ مولوی صاحب نے تعیین مرجع لیؤمنن بہ میں کوئی قطعی ثبوت پیش نہیں کیا۔
اقول… قطعی ثبوت یہی ہے کہ ظاہر نص قرآنی یہی ہے کہ ضمیر بہ کی عائد ہے۔ طرف حضرت عیسیٰ عم کے اور کوئی صارف یہاں متحقق نہیں ہے۔ وقد مرتفصیلہ فتذکر!
قولہ… کیونکہ تفسیر معالم التنزیل وغیرہ تفاسیر معتبرہ میں حضرت عکرمہ وغیرہ صحابہؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ ضمیر بہ کی جناب خاتم الانبیائﷺ کی طرف پھرتی ہے۔