اقول… مخفی نہ رہے کہ اس ناچیز نے اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے وہ تمام معانی جو مخالف میرے مدعا کے مباحثہ ہذا کے زمانہ تک ظاہر ہوئے تھے۔ دلائل شافیہ سے توڑ دئیے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ سے اب تک مفسرین نے اس آیت کے دو ہی معنی لکھے ہیں۔ دلاثالث لہما ایک یہ کہ ضمیر قبل موتہ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف عائد کی جاوے۔ اعم اس سے کہ بہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف عائد ہو یا اﷲتعالیٰ کی طرف یا آنحضرتﷺ کی طرف سب کامآل ایک ہے۔ یعنی آئندہ زمانہ میں ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے سب اہل کتاب اﷲ تعالیٰ اور آنحضرتﷺ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے سے پہلے ایمان لاویں گے۔ یہ معنی میں نے اختیار کئے ہیں اور یہی مثبت حیات مسیح عم ہیں۔ دوسرے یہ کہ ضمیر قبل موتہ کی کتابی کی طرف عائد ہو۔ اعم اس سے کہ بہ کی ضمیر اﷲتعالیٰ کی طرف پھرے یا محمد رسول اﷲﷺ کی طرف پھرے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف مآل ایک ہے۔ یعنی ہر اہل کتاب اپنے مرنے سے پہلے زہوق روح کے وقت اﷲتعالیٰ وآنحضرتﷺ وحضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتا ہے۔ اس معنی کو مع دونوں احتمالوں کے خاکسار نے باطل کر دیا اور مرزاقادیانی سے اس کا کچھ جواب نہ ہوسکا اور وہ تین معانی جو مرزاقادیانی اور ان کے اتباع کے مخترعات سے تھے۔ وہ بھی باطل کر دئیے کہ جن کا کچھ جواب مرزاقادیانی کی طرف سے نہ ہوسکا۔ پھر ایک تقریر آپ کی مسلمات کی بناء پر ایسی لکھی گئی ہے۔ جس سے سارے معنی جو مخالف میرے دعوے کے ہیں۔ اعم اس سے کہ حضرتﷺ کے زمانہ سے اب تک کسی مفسر نے لکھے ہوں یا حال کے زمانہ میں کسی نے ایجاد کئے ہوں یا آئندہ قیامت تک کوئی ایجاد کرے باطل ہوگئے اور آپ سے اس کا کچھ جواب نہ ہوسکا۔ اب تحریر ہذا میں ایک دلیل تحقیقی طور پر ایسی لکھی گئی ہے۔ جس سے معانی ماضیہ وموجودہ وآتیہ وتمام احتمالات عقلیہ جو مخالف میرے دعویٰ کے ہیں۔ قطعاً باطل ہو جاتی ہیں۔ اس دلیل کا تحریر چہارم یا پنجم میں لکھنے کا ارادہ تھا۔ مگر چونکہ مرزاقادیانی مباحثہ کو ناتمام چھوڑ کر فرار کرگئے۔ لہٰذا نوبت لکھنے کی نہ آئی۔ اس لئے تحریر ہذا میں لکھی گئی۔ الحمدﷲ حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ علیٰ ما احق الحق وابطل الباطل فماذا بعد الحق الاالضلال!
اب ناظرین باانصاف انصاف سے فرماویں کہ احتمالات معانی مخالفہ کا توڑنا مافوق اس کے متصور ہے۔ جیسا کہ حق تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس عاجز کے واسطے توڑ کر ظاہر کر دیا۔