حدیث تو ہے یہ ثابت نہیں ہوا کہ وہ کسی مفتری کا افتراء ہے۔ پس کیا وہ ابن عباس کے معنوں کو ترجیح دینے کے لئے کچھ بھی اثر نہیں ڈالتی۔
اقول… اگرچہ حدیث ضعیف تائید کے لئے کافی ہے۔ لیکن ظاہر نص قرآنی یہ ہے کہ ضمیر بہ وموتہ کی عائد طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہے اور صارف نص کا ظاہر سے قطعی چاہئے اور روایت اس قرأت کی قطعی نہیں ہے۔
قولہ… ابن عباسؓ اور عکرمہ پر یہ الزام دینا کہ وہ نحوی قاعدہ سے بے خبر تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔
اقول… میں نے ابن عباسؓ اور عکرمہ پر ہرگز یہ الزام نہیں دیا ہے۔ یہ تو عوام کے فریب دینے کے لئے آپ کی چالاکی ہے۔ خدا سے ڈرئیے اور ایسے افتراء سے پرہیز کیجئے۔ میں نے تو صرف ابن عباسؓ کی ایک روایت کو ضعیف وغیر معتبر کہا ہے اور اسی کے ایک معنی پر اعتراض کیا ہے کہ اس معنی کی بناء پر مخالفت قاعدہ نحویہ اجماعیہ کی لازم آتی ہے۔ پس کیا ضرور ہے کہ برتقدیر ثبوت اس روایت کے ابن عباسؓ کی وہی مراد ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ابن عباسؓ کی مراد دوسرے معنی ہوں جو اوپر مذکور ہوئے۔ ہاں دوسرے معنی کو بھی ادلہ سے میں نے رد کیا ہے۔ مگر اس کو الزام مخالفت قاعدہ نحویہ سے کچھ علاقہ نہیں ہے۔ بالجملہ میں نے ابن عباسؓ اور عکرمہؓ پر ہرگز الزام نحوی قاعدہ سے بیخبری کا نہیں دیا ہے۔ میں نے صرف تین کام کئے ہیں۔ ایک تکلم کیا ہے اس روایت کے رواۃ میں دوسرے اس روایت کے ایک معنی پر الزام دیا ہے۔ مخالفت قاعدہ نحویہ کا تیسرے اس روایت کے دوسرے معنی کو باطل کیا ہے۔ بادلہ قاطعہ صریحہ اور ان امور میں سے کوئی امر سبب طعن نہیں ہوسکتا ہے۔
قولہ… اگر وہ اپنے معنوں کو قطعیۃ الدلالۃ بنانا چاہتے ہیں تو ان پر فرض ہے کہ ان دونوں باتوں کا قطعی طور پر پہلے فیصلہ کر لیں۔ کیونکہ جب تک ابن عباسؓ اور عکرمہ کے مخالف معنوں میں احتمال صحت باقی ہے اور ایسا ہی گو قرأت شاذہ بقول مولوی صاحب کے ضعیف ہے۔ مگر احتمال صحت رکھتی ہے۔ تب تک مولوی صاحب کے معنی باوجود قائم ہونے ان تمام احتمالات کے کیونکر قطعی ٹھہر سکتے ہیں۔
ناظرین! آپ لوگ خود سوچ لیں کہ قطعی معنی تو ان ہی معنوں کو کہا جاتا ہے۔ جن کی دوسری وجوہ سرے سے پیدا نہ ہوں یا پیدا تو ہوں۔ لیکن قطیعۃ کا مدعی دلائل شافیہ سے ان تمام مخالف معنوں کو توڑ دے۔