میں بیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے اور اجنبی کلام کا وسط قصہ میں بغیر کسی فائدہ کے لانا نظم قرآن کو بلاغت سے گرانا ہے۔ علاوہ اس کے ان دونوں تقدیروں کے ابطال کے اور وجوہ بھی ہیں۔ جن کو انشاء اﷲ تعالیٰ مقدمہ میں بیان کیا جائے گا۔ پس کتابی کی طرف ضمیر کے راجع کرنے میں تین احتمالات تھے۔ وہ تینوں باطل ہوگئے۔ پس متعین ہوا کہ ضمیر قبل موتہ کی عائد طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہے اور اس پر اور بھی دلیل ہے جو مقدمہ میں انشاء اﷲ تعالیٰ لکھی جاوے گی اور یہ امر مبطل ہے اور ابن عباس کے معنی مذکور کا۔ وھو المطلوب!
وجہ سوم لیؤمنن میں ایمان کا لفظ واقع ہے اور یہ لفظ سارے قرآن مجید واحادیث میں اس ایمان کے لئے استعمال کیاگیا ہے جو شرعاً نافع ومعتدبہ ہے۔ یعنی ایمان قبل زہوق روح کسی ایک جگہ بھی قرآن وحدیث میں بغیر قرینہ صارفہ کے ایمان باس کے لئے نہیں آیا ہے۔ پس ظاہر ایمان سے ایمان قبل الباس ہے اور صرف آیت کا ظاہر سے بغیر صارف قطعی کے جائز نہیں ہے اور یہاں کوئی صارف قطعی پایا نہیں جاتا اور بالا ظاہر ہوا کہ اثر ابن عباس اور قرأت شاذہ ابی بن کعب مطلق صارف ہونے کی ہی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ چہ جائیکہ صارف قطعی ہو اور ابن عباس کے معنی مذکور کے موافق ایمان سے ایمان باس مراد ہے۔
چہارم… ابن عباسؓ کے معنی مذکور کے موافق قبل موتہ کی قید لغو ہوتی ہے۔ کیونکہ اس تقدیر پر موتہ کی ضمیر کتابی کی طرف عائد ہوگی اور ظاہر ہے کہ ہر ایمان لانے والا اپنی موت سے پہلے ایمان لاتا ہے۔ بعد الموت تو متصور ہی نہیں۔ یہ قید اس تقدیر پر کلام الٰہی کو ایسا لغو کئے دیتی ہے۔ جیسا فارسی کا یہ شعر ؎
دندان تو جملہ دردہان ست
چشمان تو زیرا بروان ست
پنجم… ابن عباسؓ کے اس معنی کے موافق صرف لفظ قبل کا ظاہر معنی سے لازم آتا ہے۔ کیونکر ظاہر قبل موتہ کا عام ہے۔ اس سب زمانہ کو شامل ہے جو موت سے پہلے ہے اور مقصود زمانہ زہوق روح کا ہے۔ اس تقدیر پر بجائے قبل موتہ کے عند موتہ یا وقت موتہ یا حین موتہ مناسب تھا۔
ششم… یہ معنی ابن عباسؓ کے مبنی ہیں۔ روایت مذکورہ پر اور روایت مذکورہ کے سب طریق ضعیف میں۔ کمامر آنفاً!
قولہ… فرض کرو کہ وہ قرأت بقول حضرت مولوی صاحب کے ایک ضعیف حدیث ہے۔ مگر