اور اس طریق میں راوی خصیف ہے اور وہ بہت مجروح ہے۔ تقریب میں ہے۔ ’’الخصیف بالحاء المہملۃ مصغرا ابن عبدالرحمن الجزری ابوعون صدوق سئی الحفظ خلط بآخرہ ورمی بالارجاء من الخامسۃ‘‘
کاشف میں ہے۔ ’’خصیف بن عبدالرحمن الجزری ابوعون مولی بنی امۃ عن سعید بن جبیر ومجاہد وعنہ سفیان وابن فضیل صدوق سیٔ الحفظ ضعفہ احمد‘‘
میزان میں ہے۔ ’’ضعفہ احمد وقال مرۃ لیس بقوی وقال ابوحاتم لکم فی سوء حفظہ وقال احمد ایضا تکلم فی الارجائ‘‘ چوتھا طریق یہ ہے۔ ’’روی ابوداؤد الطیالسی عن شعبۃ عن ابی ہرون الغنوی عن عکرمۃ عن ابن عباسؓ‘‘ اس میں راوی سلیمان بن داؤد الطیالسی ہے۔ اس نے بہت احادیث کی روایت میں خطا کی ہے۔ تقریب میں ہے۔ ’’سلیمان بن داؤد بن الجارود ابوداؤد الطیالسی البصری ثقۃ حافظ غلط فی احادیث من التاسعہ‘‘ میزان میں ہے۔ ’’قال ابراہیم بن سعید الجوہری الحافظ اخطا ابوداؤد فی الف حدیث وقال ابوحاتم ابوداؤد محدث صدوق کثیر الخطاء وقال محمد بن المنہال الضریر کنت اتہم اباداؤد وقال لی لم اسمع من ابن عون ثم سألتہ بعد سنۃ اسمعت من ابن عون قال نعم نحو عشرین حدیثا‘‘
پانچویں طریق میں علی بن ابی طلحہ راوی ہے۔ اس نے ابن عباسؓ سے تفسیر نہیں سنی ہے اور یہ راوی ضعیف بھی ہے اور قرأۃ شاذہ ابی بن کعب بھی صارف قطعی نہیں ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اس میں دوراوی ضعیف میں ایک عتاب بن بشیر۔
دوم… خصیف اگر کہا جاوے کہ آیت ’’انی متوفیک ورافعک الیّ (آل عمران:۵۵) وآیت فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (مائدہ:۱۱۷)‘‘ اس کی صارف قطعی ہے تو جواب یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں کی بحث تحریر ہذا کے آخر میں انشاء اﷲ تعالیٰ بیان کی جاوے گی اور اگر ضمیر بہ کی عائد کی جاوے طرف اﷲتعالیٰ یا محمد رسول اﷲﷺ کے تو ان دونوں تقدیروں پر آیت ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (نسائ:۱۵۹)‘‘ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ سے کچھ تعلق نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اجنبیت محضہ ہے اور حالانکہ ماقبل وما بعد