انشاء اﷲ تعالیٰ چوتھی یا پانچویں تحریر میں ذکر اس کا ضرور کرتا۔ اب میں اس کو لکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ضمیر قبل موتہ کی دو حال سے خالی نہیں یا تو راجع ہے طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تو مطلوب حاصل ہے۔ یعنی ثبوت حیات مسیح علیہ السلام خواہ لیؤمنن کو استقبال کے لئے خاص کیجئے یا نہیں۔ برتقدیر استقبال تو ثبوت مدعا ظاہر ہے اور برتقدیر حال قطع نظر اس احتمال کے صحت وفساد سے اس قدر ضرور ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ نزول آیت تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ تھے جو زمانہ رفع عیسیٰ علیہ السلام سے چھ سو برس سے زائد کے بعد آیا ہے اور اس زمانہ کے بعد وفات پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ پس حیات ثابت ہوئی اور برتقدیر استمرار قطع نظر اس احتمال کے صحت وفساد سے ثبوت مدعا اظہر من الشمس ہے اور لیؤمنن کو ماضی کے لئے لینا قطع نظر اس احتمال کے صحت وفساد سے صریح البطلان ہے۔ کیونکہ ایسا فعل مضارع جس کے اوّل میں لام تاکید اور آخر میں نون تاکید ہو۔ کہیں بمعنی ماضی نہیں آیا ہے۔ ’’ومن یدعی فعلیہ البیان‘‘ اور یا ضمیر قبل موتہ کی راجع طرف کتابی کے ہے۔ پھر یہاں تین احتمالات ہیں یا تو ضمیر بہ کی راجع ہے۔ طرف عیسیٰ علیہ السلام کے پس ضمائر ماقبل یعنی ضمائر وماقتلوہ وما صلبوہ وفیہ ومنہ وبہ وماقتلوہ وبل رفعہ وبہ یہ سب آٹھ ضمائر راجع ہوئے۔ طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اور ضمیر ما بعد یعنی ضمیر یکون بھی راجع ہے۔ طرف عیسیٰ علیہ السلام کے۔ پس اس سے ہر منصف سمجھ سکتا ہے کہ ظاہر نص قرآنی یہی ہے کہ ضمیر قبل موتہ کی بھی راجع ہے طرف عیسیٰ علیہ السلام کے اور صرف نص کا ظاہر سے بلاصارف قطعی جائز نہیں۔ کما تقرر فی الاصول والکلام اور یہاں کوئی صارف قطعی موجود نہیں ہے۔ اثر ابن عباسؓ صارف قطعی ہو نہیں سکتا ہے۔ کیونکہ:
اوّل… تو حدیث موقوف حجت ہی نہیں ہے۔ چہ جائیکہ قطعی ہو۔
دوم… اس اثر کا معارض دوسرا اثر ابن عباسؓ کا صحیح موجود ہے۔
’’قال ابن کثیر فی تفسیرہ ذکر من قال ذلک حدثنا ابن بشار حدثنا عبدالرحمن عن سفیان عن ابی حصین عن سعید بن جبیر عن ابن عباس وان من اہل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام وقال العوفی عن ابن عباس مثل ذلک (تفسیر ابن کثیر ج۲ ص۴۰۱)‘‘ اس اثر کے سب رجال رجال صحیحین ہیں۔
سوم… اثر مذکور کی رواۃ مجروح ہیں۔ بیان اس کا یہ ہے کہ یہ اثر چند طرق سے منقول ہے۔