اوّل… یہ کہ نہیں کوئی اہل کتاب میں سے خواہ زمانۂ ماضی میں ہو یا حال میں یا استقبال میں۔ مگر وہ ایمان لاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے مرنے سے پہلے زہوق روح کے وقت۔
دوم… یہ کہ نہیں ہے کوئی اہل کتاب میں سے جو زمانہ نزول آیت میں زندہ موجود تھے۔ مگر وہ ایمان لاوے گا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے مرنے سے پہلے زہوق روح کے وقت۔ پہلے معنی کے موافق الزام نحوی غلطی کا آتا ہے۔ نہ دوسرے معنی کے موافق۔ پس محتمل ہے کہ ابن عباس نے دوسرے معنی مراد لئے ہوں۔ پس الزام نحوی غلطی کا ان کی طرف عائد نہ ہوگا۔ ہاں جو لوگ کلام ابن عباسؓ سے پہلے معنی سمجھے ہیں۔ جیسے نوی وصاحب تفسیر مظہری وغیرہما ان پر البتہ الزام نحوی غلطی کا عائد ہوگا۔ رہی یہ بات کہ کوئی اور بھی وجہ ہے کہ جس کی رو سے ابن عباسؓ کے یہ معنی رد کے لائق ہیں تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ ابن عباسؓ کے یہ معنی علاوہ ضعف روایت کے قابل تسلیم نہیں۔ بچند وجوہ:
اوّل… وہ وجہ جو تحریر دوم میں خاکسار نے بیان کی ہے اور مرزاقادیانی نے اپنی تحریر دوم وسوم میں اس کا جواب نہیں دیا۔ پس بمقتضائے السکوت فی معرض البیان بیان کے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی نے اس کو تسلیم کر لیا۔ محصل اس کا یہ ہے کہ اس معنی کا مناط اس پر ہے کہ احتضار کے وقت ہر شخص پر وہ حق کھل جاتا ہے جس کو وہ نہ جانتا تھا اور یہ امر نفس الامر میں تینوں زمانوں کو شامل ہے۔ اب آیت کو اگر خالص استقبال کے لئے لیجئے گا تو یہ شبہ پیدا ہوگا کہ یہ امر زمانہ ماضی وحال کو شامل نہیں ہے اور یہ خلاف نفس الامر ہے۔ پس اس کلام میں یہ عیب ہوا کہ خلاف نفس الامر کا موہم ہے اور فائدہ کوئی نہیں۔ اگر بجائے لیؤمنن لفظ یؤمن یا آمنون اختیار کیا جاتا تو وعید اور تحریض جو مطلوب ہے وہ بھی حاصل ہوتی اور اختصار بھی پس قرآن مجید کی بلاغت جو حد اعجاز کو پہنچ گئی ہے۔ اس کے خلاف ہے کہ ایسی عمدہ عبارت چھوڑ کر بجائے اس کے لیؤمنن اختیار کیا جاوے کہ جس میں ایہام خلاف نفس الامر ہے اور اطناب بلا فائدہ۔
دوم… وہ وجہ ہے کہ جس سے سب معانی کا بطلان جو ہمارے مدعا کے مثبت نہیں ہیں ثابت ہوتا ہے۔ خواہ وہ معانی ہوں جو اگلے مفسرین نے آنحضرتﷺ کے زمانہ سے اب تک لکھے ہیں خواہ وہ جو اس زمانہ میں مرزاقادیانی اور ان کے اتباع نے اختراع کئے ہیں یا آئندہ قیامت تک کوئی اختراع کرے اور یہ وجہ میرے نزدیک اقوی الوجوہ ہے۔ اخیر تحریر کے لئے میں نے اس کو کہہ چھوڑا تھا اگر مرزاقادیانی خلاف معاہدہ کے مباحثہ کو ناتمام چھوڑ کر دہلی سے نہ چلے جاتے تو