قولہ… اور فرماتے ہیں کہ جو حضرت ابن عباس وغیرہ صحابی نے اس کے مخالف معنی کئے ہیں۔
اقول… اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے سوائے ابن عباسؓ کے دوسروں نے بھی اس کے مخالف معنی کئے ہیں۔ حالانکہ تفاسیر معتبرہ میں سوائے ابن عباسؓ کے دوسرے کا قول منقول نہیں۔ ’’ومن یدعی فعلیہ البیان‘‘ اگر کہا جائے کہ ابی بن کعب کی قرأت میں قبل موتہم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابی بن کعب کے نزدیک بھی معنی آیت کے وہی ہیں جو ابن عباس کے نزدیک ہیں تو جواب یہ ہے کہ اس قرأت سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ معنی کے ابی بن کعب کے نزدیک بھی وہی ہوں جو ابن عباس سے منقول ہیں۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ مراد یہ ہو کہ اہل کتاب موجودہ زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی موت سے پہلے ایمان لاویں گے نہ یہ کہ نزع روح کے وقت ہر ایک اہل کتاب ان پر ایمان لاتا ہے اور مجرد موتہ کی ضمیر کتابی کی طرف عائد کرنے سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ اس کے قائل کے نزدیک یہ معنی ہوں کہ ہر کتابی اپنے مرنے سے پہلے نزع روح کے وقت حضرت عیسیٰ پر ایمان لاتا ہے۔ بلکہ محتمل ہے کہ ان قائلین کی یہ مراد ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ہر کتابی ان پر اپنے مرنے سے پہلے ایمان لائے گا۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے تصریح اس کے خلاف کی کردی ہے۔
قولہ… مولوی صاحب کی اس تقریر کا حاصل کلام یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ابن عباس اور عکرمہ اور ابی بن کعب وغیرہ صحابہ نحو نہیں پڑے ہوئے ہیں۔
اقول… ظاہر اس کلام کا یہ ہے کہ عکرمہ صحابہ میں سے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط محض ہے۔ عکرمہ تو تابعین میں داخل ہے۔ علاوہ اس کے یہ قول دلالت کرتا ہے۔ اس پر کہ سوائے ابن عباس اور ابی بن کعب کے اور صحابہ نے بھی یہ معنی کئے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی غلط محض ہے۔ ومن یدعی فعلیہ الاثبات!
قولہ… اور اگر مولوی صاحب نحوی غلطی کا ابن عباس پر الزام قائم نہیں کرتے تو پھر کیا کوئی اور بھی وجہ ہے۔ جس کے رو سے مولوی صاحب کے خیال میں ابن عباس کے وہ معنی اس آیت متنازع فیہ میں رد کے لائق ہیں۔ جن کی تائید میں ایک قرأت شاذہ بھی موجود ہے۔
اقول… مخفی نہ رہے کہ ابن عباس سے جو معنی منقول ہیں اس سے ابن عباسؓ پر الزام نحوی غلطی کا نہیں لگایا جاتا ہے۔ بلکہ اس معنی کی اور وجوہ میں حاصل یہ ہے کہ جو معنی ابن عباسؓ سے منقول ہیں اس میں دواحتمال ہیں۔