مضمون جو وقت قطع مباحثہ کے سنایا گیا
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید الہادین وعلیٰ آلہ واصحابہ الراشدین المہدیین۔ اما بعد!
بڑے افسوس کی بات ہے کہ میں نے سب شرطیں اور ضدیں مرزاقادیانی کی منظور کیں اور مرزاقادیانی نے پھر یہی اپنے تحریروتقریر کی خلاف کیا۔ حضرات سامعین وناظرین آپ کو یاد رہے کہ مجھ کو مرزاقادیانی نے بوساطت حاجی محمد احمد صاحب طلب کیا۔ میں آیا مرزاقادیانی نے تحریری بحث کی شرط کی۔ میں نے منظور کی مرزاقادیانی نے پہلے مجمع عام میں بحث کا وعدہ کر کے پھر اپنے مکان پر تخلیہ کی قید لگائی۔ وہ بھی میں نے منظور کی پھر اس تخلیہ میں بھی۔ یہ شرط کی کہ مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی عبدالمجید صاحب نہ ہوں۔ میں نے اتماماً للحجۃ یہ بھی قبول کیا۔ حالانکہ یہ امر نہ مجھ کو زیبا تھا اور نہ مرزاقادیانی کے لے قابل اظہار تھا۔ مرزاقادیانی نے گفتگو تحریری بالمواجہہ کرنی ٹھہرائی تھی۔ مگر جس وقت میں نے اپنا دعویٰ ان کے مکان پر لکھ کر پیش کیا تو کہا اس کو چھوڑ جاؤ۔ کل دس بجے جواب دوں گا۔ میں نے یہ بھی منظور کیا اور دوسرے دن دس بجے مرزاقادیانی کے مکان پر گیا اور تھوڑی دیر بیٹھا رہا۔ مرزاقادیانی کو اطلاع کرائی گئی تو خود نہ آئے اور کہلا بھیجا کہ ابھی پورا لکھا نہیں گیا۔ سہ پہر کو آنا۔ مرزاقادیانی نے خود ہی اپنی تحریر میں لکھا تھا کہ جانبین کی پانچ پانچ تحریریں ہوں۔ تاکہ بحث میں طول نہ ہو۔ میں نے یہ بھی منظور کیا۔ مگر ہنوز میری اور مرزاقادیانی کی تیسری تحریر ہے اور آپ بحث ختم کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی کے ذمہ بار ثبوت تھا باوجود ادعا۔ ہائے چنان وچنین میرے ذمہ رکھا میں نے یہ بھی منظور کیا اور ثبوت حیات حضرت مسیح علیہ السلام قرآن وحدیث سے پیش کیا۔ مرزاقادیانی نے نہ اس کو قبول کیا اور نہ اس کا جواب حسب قاعدہ مناظرہ دیا۔ بلکہ فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کیا۔ جس سے عموماً ناظرین اور سامعین نتیجہ بحث سمجھ سکتے ہیں۔ آخر میں یہ بھی کہنا نامناسب نہیں سمجھتا کہ قطع بحث باوجود ان تمام امور مذکورۂ بالا کے مرزاقادیانی ہی کرتے ہیں اور اپنے ان تمام رقعات کو ردی کرتے ہیں۔ جن میں یہ وعدہ لکھ چکے ہیں کہ اوّل بحث وفات وحیات مسیح میں ہوگی اور پھر نزول مسیح میں اور تیسری بحث میرے مسیح موعود ہونے میں جو کوئی ان میں انکار کرے اس کی گریز متصور ہوگی۔ پس سب صاحب ایماناً اور انصافاً کہہ دیں کہ فی الواقع مرزاقادیانی اپنے خیالات اور مقالات اور ایفاء وعدہ میں کس قدر سچے اور پکے اور مضبوط وقائم ہیں۔ فاعتبر وایا اولیٰ الابصار!