پر ہیں اور بات کو ادھر ادھر لے جاکر ٹلا رہے ہیں۔ لہٰذا آئندہ آپ کو اس پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اگر آپ کو بحث منظور اور الزام فرار سے احتراز مدنظر ہو تو زائد باتوں کو چھوڑ کر میری اصل دلیل پر کلام وبحث کو محدود ومحصور کریں۔
اور جو میں بہ شہادت قواعد نحویہ اجماعیہ مضمون آیت کا زمانہ استقبال سے مخصوص ہونا اور بصورت صحت تخصیص اس مضمون کا وقت نزول مسیح سے مخصوص ہونا ثابت کیا ہے۔ اس کا جواب درصورت تسلیم قواعد نحویہ اجماعیہ دو حرفی دیں کہ تمام قواعد نحوی بے کار وبے اعتبار ہیں یا خاص کر یہ قاعدہ غلط ہے اور اس کو فلاں شخص نے غلط قرار دیا ہے اور اس کی غلطی پر قرآن یا حدیث صحیح یا اقوال عرب عرباء سے یہ دلیل ہے اور بجائے اس کے قاعدہ صحیحہ فلاں ہے۔
یا یہ کہ فہم معنی قرآن کے لئے کوئی قاعدہ مقرر نہیں ہے۔ جس طرح کوئی چاہے قرآن کے معنی گھڑ سکتا ہے اور درصورت تسلیم قاعدہ اور تسلیم تخصیص مضمون آیت بزمانہ استقبال اس مضمون کے تخصیص زمانہ نزول مسیح سے فلاں دلیل کی شہادت سے باطل ہے یا اس تخصیص سے جو فائدہ بیان کیاگیا ہے وہ اور صورتوں اور معنی سے بھی جو بیان کئے گئے ہیں۔ حاصل ہوسکتا ہے۔
اور اگر مجرد اختلاف مفسرین تفسیر آیت میں اسی تخصیص کا مبطل ہوسکتا ہے اور مجرد اقوال مفسرین آپ کے نزدیک لائق استدلال واستناد ہیں تو آپ مفسرین صحابہ وتابعین کے ان اقوال کو جو درباب حیات مسیح وارد ہیں۔ قبول کریں یا ان کے ایسے معنی بتاویں جن سے وفات مسیح ثابت ہو۔
ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ جہاں کے مفسرین اور جملہ صحابہ وتابعین ہمارے ساتھ ہیں۔ ان میں کوئی اس کا قائل نہیں کہ مسیح ابن مریم اب زندہ نہیں ہیں۔ آپ ایک صحابی یا ایک تابعی یا ایک امام مفسر سے بہ سند صحیح اگر یہ ثابت کر دیں کہ حضرت مسیح اب زندہ نہیں ہیں تو ہم دعویٰ حیات مسیح سے دست بردار ہو جائیں گے۔ لیجئے ایک ہی بات میں بات طے ہوتی ہے اور فتح ہاتھ آتی ہے۔ اب اگر آپ یہ ثابت نہ کرسکے تو ہم سے جملہ مفسرین وصحابہ وتابعین کے اقوال سنیں۔ جن کو ہم آئندہ پرچہ میں نقل کریں گے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ عام ناظرین تو اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور اس سے نتیجہ بحث نکالیں گے۔ آپ سے ہم کو امید نہیں رہی کہ آپ اصل مدعا کی طرف آئیں گے اور زائد باتوں کو چھوڑ کر صرف دو حرفی جواب دیں جو اس منصفانہ جواب میں آپ سے طلب کیا گیا ہے۔ وآخردعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین! محمد بشیر عفی عنہ، ۲۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء