اصل متمسک اور مستقل دلیل پہلی آیت ہے اور اس کے قطعیۃ الدلالت کے ثبوت میں قواعد نحویہ اجماعیہ کو پیش کیا۔ آپ بھی نیک نیت اور طالب حق ہوتے تو اس کے جواب میں دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرتے یا تو میرے جملہ دلائل وجوابات سے تعرض کرتے اور ان میں سے ایک بات کا جواب بھی باقی نہ چھوڑتے۔ یا صرف میری اصل دلیل سے تعرض فرماتے۔ اس کے سوا کسی بات کے جواب سے معترض نہ ہوتے۔ آپ نے پہلی صورت اختیار کی نہ دوسری۔ بلکہ میری اصلی دلیل کے علاوہ اور باتوں سے بھی تعرض کیا۔ مگر ان کو بھی ادھورا چھوڑا اور بہت سی باتوں کا جواب حوالہ آئندہ پر چھوڑا اور ان کے مقابلہ میں اپنے دلائل احادیث بخاری وغیرہ کے بیان کو بھی آپ نے آئندہ پرچہ پر ملتوی کیا اور جو کچھ بیان کیا ایسے انداز سے بیان کیا کہ اصل دلیل سے بہت دور چلے گئے اور اپنے بیان کو ایسے پیرایہ میں ادا کیا کہ اس سے عوام دھوکہ کھائیں اور خواص ناخوش ہوں۔ اس کی مثال آپ کی یہ بحث ہے کہ آپ مدعی نہیں ہیں۔ صاحب من! جس حالت میں میں خود مدعی ہوکر دلائل پیش کر چکا تھا تو آپ کو اس بحث کی کیا ضرورت تھی۔
دوسری مثال یہ ہے کہ حضرت شیخنا وشیخ الکل کی رائے کا ذکر بے موقع کر کے لوگوں کو پھر جتانا چاہا کہ حضرت شیخ الکل بھی اس بحث میں آپ کے مخاطب ہیں۔ حالانکہ شیخ الکل کی بحث سے فرار اختیار کر کے آپ نے مجھے مخاطب بحث بنایا تھا۔ لہٰذا شیخ الکل کا ذکر میرے خطاب میں محض اجنبی ونامناسب تھا۔
تیسری مثال یہ ہے کہ آپ نے چند تفاسیر کی عبارات واقوال بعض صحابہ رضوان اﷲ علیہم نقل کر کے عوام الناس کو یہ جتانا چاہا ہے کہ تمام مفسرین اور عامہ صحابہ وتابعین مسئلہ حیات وفات مسیح میں آپ کے موافق اور ہمارے مخالف ہیں اور یہ محض مغالطہ ہے۔ کوئی صحابی کوئی تابعی کوئی مفسر اس بات کا قائل نہیں ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام اس وقت زندہ نہیں ہیں۔
چوتھی مثال آپ کا عوام الناس کو یہ جتانا ہے کہ نون یؤمنن کو استقبال کے لئے ٹھہرانا تمام صحابہ ومفسرین کو جاہل قرار دینا ہے جو سراسر آپ کا دھوکا ومغالطہ ہے۔
آپ کی اس قسم کی باتوں کا میں تین دفعہ تو جواب ترکی بترکی دے چکا۔ آئندہ بھی یہ ہی طریقہ جاری رہا تو اس سے آپ کو یہ فائدہ ہوگا کہ اصل بات ٹل جائے گی اور آپ کے اتباع میں آپ کی جواب نویسی ثابت ہو جائے گی۔ مگر اس میں مسلمانوں کا یہ حرج ہوگا کہ ان پر نتیجہ بحث ظاہر نہ ہوگا اور آپ کا اصل حال نہ کھلے گا کہ آپ لاجواب ہوچکے ہیں اور اعتقاد وفات مسیح میں خطا