اور بعد اقرار اس امر کے حیات کا اقرار لازم آتا ہے۔ ’’کمامر تقریرہ بحیث لا یحوم حولہ شک‘‘
دوم… برتقدیر موت۱۴؎ بھی نزول خود حضرت عیسیٰ کا نہ محال ہے اور نہ محال عادی اور جو چیز محال عادی وعقلی نہ ہو اور مخبر صادق اس کی خبر دے تو اس سے انحراف جائز نہیں اور احادیث صحیحہ میں نزول عیسیٰ کی خبر متواتر موجود ہے۔
قولہ… (قادیانی) جب آپ حیات مسیح کو ثابت کر دکھائیں گے تو پھر ان کا نزول بھی مانا جائے گا۔
اقول… (محمد بشیر) اس میں کچھ ملازمت نہیں۔ برتقدیر وفات بھی نزول کے نہ ماننے کی کوئی وجہ معقول نہیں ہے۔
قولہ… (قادیانی) ورنہ بخاری میں وہ حدیثیں بھی ہیں۔ جن میں ابن مریم کا ذکر کر کے ان سے مراد کوئی مثیل لیاگیا ہے۔
اقول… (محمد بشیر) ظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے احادیث نزول کے دیگر احادیث بھی بخاری میں ایسی ہیں۔ جن میں ابن مریم کا ذکر کر کے اس سے مراد اس کا کوئی مثیل لیاگیا ہے۔ پس آپ کو چاہئے۱۵؎ کہ براہ عنایت ان احادیث کو نقل فرمائے تاکہ اس میں نظر کی جاوے کہ وہاں مثیل مراد لیاگیا ہے یا نہیں۔
قولہ… (قادیانی) افسوس کہ اب تک آپ کچھ پیش نہ کر سکے۔
اقول… (محمد بشیر) افسوس کہ باوجود۱۶؎ اس کے کہ آپ کے اقرار سے حیات مسیح آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ سے صراحۃً ثابت ہوگئی۔ پھر بھی آپ ایسا فرماتے ہیں۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ والی اﷲ المشتکی‘‘
اب سنئے یہ تو آپ کی تحریر کا جواب ترکی بترکی ہوا۔ اب ایک نہایت منصفانہ اور فیصلہ کرنے والا جواب دیا جاتا ہے۔ آپ اگر انصاف کے مدعی اور حق کے طالب ہیں تو اسی کا جواب دیں اور جواب ترکی بترکی سے تعارض نہ کریں۔ ایسا کریں گے تو یقینا سمجھا جائے گا کہ آپ فیصلہ کرنا نہیں چاہتے اور احقاق حق سے آپ کو غرض نہیں ہے۔ وہ جواب یہ ہے کہ میں نے کمال نیک نیتی سے احقاق حق کی غرض سے اپنے ان جملہ دلائل کو جن کو میں اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یک بارگی قلم بند کر کے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میرا