اقول… (محمد بشیر) فرق نہ کرنا درمیان مستقبل قریب وحال کے محصلین سے بعید ہے۔ جیسا کہ ماہر علم نحو پر بلکہ قاصر پر بھی مخفی نہیں ہے۔
قولہ… (قادیانی) یہ تو ہم نے تسلیم کیا کہ وعدہ ہے۔ مگر یہ کہاں سے ثابت ہے کہ وعدہ آنے والے لوگوں کے لئے خاص ہے۔
اقول… (محمد بشیر) یہ کس نے کہا کہ یہ وعدہ آنے والے لوگوں کے لئے خاص ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس کا ایفاء زمانہ آئندہ ہی میں ہوسکتا ہے۔ نہ حال میں اور اس بات میں جو آپ نے طول کیا ہے۔ اس کو اصل مطلب سے کچھ علاقہ نہیں اور ہم کو اس سنت اﷲ سے ہرگز انکار نہیں کہ مجاہدہ کرنے پر ضرور ہدایت مرتب ہوتی ہے۔ صرف بحث اس میں ہے کہ یہ سنت اﷲ ان آیات وعد ووعید سے ثابت نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لئے دوسری آیات دلیل ہیں۔
قولہ… (قادیانی) اب دیکھئے کہ ان آیات سے بھی آپ کا دعویٰ قطعیۃ الدلالت ہونا آیت لیؤمنن بہ کا کس قدر باطل ثابت ہوتا ہے۔
اقول… (محمد بشیر) آیات منافی قطعیۃ الدلالت ہونے آیت لیؤمنن کے نہیں۔ بلکہ آیت لیؤمنن آیات مذکورہ کی مخصص واقع ہوئی ہے۔
قولہ… (قادیانی) حلیم وہ ہے جو یبلغ الحلم کا مصداق ہو۔
اقول… (محمد بشیر) یہ حصر غیر مسلم ہے۔ کیونکہ حلیم قرآن مجید میں صفت غلام کی آئی ہے۔ فرمایا اﷲ تعالیٰ نے فبشرناہ بغلام حلیم اور غلام کے معنی کو دک صغیر کے ہیں۔ ’’کما فی الصراح‘‘ پس محتمل ہے کہ حلیم اس مقام پر ماخوذ حلم سے ہو جو آہستگی وبربادی کے معنی میں ہے۔ ’’کما فی الصراح‘‘
قاموس میں ہے۔ ’’والحلم بالکسر الانائۃ والعقل جمعہ احلام وحلوم ومنہ ام تامرہم احلامہم وھو حلیم جمع حلماً واحلاما‘‘
قولہ… (قادیانی) جب کہ عیسیٰ بن مریم کی حیات ہی ثابت نہیں ہوتی اور موت ثابت ہورہی ہے تو عیسیٰ کے حقیقی معنی کیونکر مراد ہوسکتے ہیں؟
اقول… (محمد بشیر) اس کالم میں بدووجہ شک ہے۔
اوّل… یہ کہ آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ سے آپ کے اقرار سے صراحتاً موت ثابت ہے۔ کیونکہ آپ نے توضیح المرام وازالہ اوہام میں اقرار کیا ہے کہ ضمیر موتہ۱۳؎ عیسیٰ کی طرف راجع ہے